خوشحال پاکستان، خوش قسمت پاکستانی

0
50
مجیب ایس لودھی

سر سبز لہلہاتے کھیت، وسیع ، دل فریب سمندر،مسحور کْن شامیں ، برف پوش پہاڑ، پرفضاچار موسم، پاکستان کو جنت نظیر وادی میں تبدیل کردیتے ہیں، جوصرف اپنی خوبصورتی سے ہی نہیں بلکہ قدرت کی عطا کر دہ نعمتوں ، وسائل اور خزانوں میں بھی کم نہیں ہے ، پاکستان میں دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان موجود ہے۔ پانچویں بڑی سونے کی کان اور کوئلے کے پانچویں بڑے ذخائر یہاں موجود ہیں۔تانبے کی ساتویں بڑی کان یہاں پائی جاتی ہے۔ہمارے پاس عالمی سطح پر دوسرا بڑا ڈیم (تربیلا ڈیم) ہے۔چار نیوکلیائی ریکٹرز ہیں۔دنیا کا بہترین نہری نظام ہمارا ہے۔ ہماری افواج کی جرات و شجاعت پوری دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ہم ساتویں ایٹمی طاقت ہیں۔پاکستان چاول کی پیداوار میں ساتویں اور گندم کی پیداوار میں آٹھویں نمبرپر ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو روس سے کم از کم 10گنا چھوٹا ہے،لیکن اس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے 3گنا بڑا ہے۔یہ ملک دنیا میں مٹر کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرے،خوبانی، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے ،پیاز اور دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پانچویں، کھجورکی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے، آم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں، چاول کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں، گندم کی پیداوار کے لحاظ سے نویں،مالٹے اور کینو کی پیداوار کے لحاظ سے دسویں نمبر پر ہے۔یہ ملک مجموعی زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پچیسویں نمبر پر ہے۔ اس کی صرف گندم پورے براعظم افریقہ کی پیداوارسے زائد، براعظم جنوبی امریکہ کی پیداوار کے برابر ہے۔یہ ملک دنیا میں صنعتی پیداوار کے لحاظ سے 55ویں نمبر پر ہے۔کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے اور تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے ساتوں نمبر پر ہے۔اس کے گیس کے ذخائر ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہیں۔ صحرا، سمندر،برفانی تودے، پہاڑ، لہلہاتی فصلیں ، قیمتی معدنیات کے باوجود اس کی کل آبادی کے 73 فیصد انسان ہر روز دو ڈالر سے کم کماتے ہیں۔دنیاکے ممالک میں سے بعض ایسے ہیں جو ارضی خصوصیات میں سے کسی ایک یا چند کے حامل ہیں مثلاً کوئی ملک زیادہ تر صحرا پر مشتمل ہے تو کسی ملک میں صحرا کا نام ونشان تک نہیں ہے۔ کسی ملک کے پاس دریا تو ہیں سمندر نہیں ہے۔ کسی ملک کے پاس بلند وبالا برف پوش پہاڑ ہیں مگر میدانی علاقے نہیں ہیں اور وہاں زراعت نہیں ہوپاتی۔ کسی ملک میں زراعت ہوتی ہے تو وہاں پھل نہیں ہوتے۔ کہیں پھل ہوتے ہیں مگر ان میں ذائقہ نہیں ، پھول ہوتے ہیں مگر ان میں خوشبو نہیں۔ کسی ملک میں پہاڑ اور میدان تو ہیں مگر وہاں جنگلات اور جنگلی حیات نہیں ہے۔ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ کسی ملک کے ارد گرد سمندر تو ہے مگر وہاں انواع واقسام کی مچھلیاں نہیں ہوتیں۔اب آئیے ایک نظر ذرا پاکستان پر ڈالیں۔ شمال تا جنوب پاکستان کا رقبہ ایک ہزار میل سے زیادہ ہے جبکہ مشرق تا مغرب چند سو میل سے زیادہ نہیں لیکن یہ مختصر سا خطہ جغرافیائی اور موسمی لحاظ سے کئی خصوصیات کا حامل ہے۔ مثلاً ایک یہی کہ اس ملک کے اکثر حصے میں گرمی اور سردی ، بہار اور خزاں کے موسم بھرپْور طورپر آتے ہیں جس سے زراعت پر خوشگوار اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بلند وبالا سرسبز وشاداب برف پوش پہاڑ بھی ہیں اور خشک پہاڑیاں بھی جن سے ایک طرف تو دریاؤں کو پانی ملتا ہے تو دوسری طرف انواع واقسام کے ذائقہ دار پھل اور میوے اور انتہائی بیش قیمت معدنیات ملتی ہیں۔ جس میں نمک جیسی عام چیز سے لے کر یورینیئم جیسا انتہائی اہم اور کمیاب عنصر بھی شامل ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس قدرتی طورپر بہترین کوالٹی کی حامل ہیں۔ جن میں سرفہرست چاول ہے اور اس کے بعد کپاس۔ یہی حال پھلوں کا ہے۔ آم دنیا کے کئی ممالک میں پیدا ہوتا ہے لیکن جو لذّت اورشیرِینی پاکستانی علاقے میں پیدا ہونے والے آم کی ہے وہ چند سو کلومیٹر دور بھارتی علاقے میں پیدا ہونے والے آم کی بھی نہیں ہے۔ اسی طرح کیِنو کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے سیب ، خوبانی اور انگور کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔ اب آئیے پھولوں کی طرف ، برطانیہ میں گلاب پیدا ہوتا ہے اور پھول بہت بڑے سائز کا ہوتا ہے مگر اس میں خوشبو نہیں ہوتی۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا گلاب حسن ونازکی ، لطافت بھی زیادہ رکھتا ہے اور اس میں خوشبو بھرپْور ہوتی ہے۔ یہی حال موتیا اور چنبیلی کا ہے۔ سمندری غذائی وسائل کی طرف نگاہ ڈالیں ،قدرت نے آبی حیات کے سلسلے میں بھی پاکستان پر دل کھول کر فیاضی کی ہے۔ شاید کم ہی لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ ذائقے اور غذا کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کی مختلف مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ پاکستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہیں ، پاکستان سے چند سو کلومیٹر دور مشرق میں بھارت اور مغرب میں واقع ریاستیں اس سے محرو م ہیں۔ پاکستان کے پاس وسائل اور افراد کی کمی نہیں ہے،ہماری معاشرتی خرابیوں کے اسباب ناقض حکمت عملی میں پوشیدہ ہیں،قوم بہت اچھی ہے، بدقسمتی سے اسے لیڈر اچھے نہیں ملے۔ خود غرض حکمرانوں نے ایڈہاک ازم کی بنیاد پر کام چلایا اور قوم کی اجتماعی فلاح وبہبود کے لئے کوئی مؤثر نظام قائم نہ ہونے دیا۔ آج بھی اگر پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا مؤثر انتظام ہوجائے ، یہاں کا نظام درست ہوجائے ، ہر قدم اللہ کے احکامات اور اللہ کے رسولۖ کی تعلیمات پر صدقِ دل سے عمل شروع کردے تو یہ ملک بہت تھوڑے عرصہ میں ترقی اور خوشحالی کا مرکز بن جائیگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here