!!!سفارت کار یا سیاہ کار

0
605
ماجد جرال
ماجد جرال

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے سفارتکاروں سے متعلق ان بنیادی اصولوں کا ذکر اپنے خطاب میں کیا، ان سے قطعی طور پر اختلاف نہیں کیا جاسکتا، سفارتکاری کا محاذ کسی بھی ملک کے لیے اپنی ترقی کا ایک اہم مورچہ ہوتا ہے۔ اس مورچے میں تجربہ کار سفارت کاروں کے ذریعے جہاں دشمن ممالک کے سفارتی حملوں کو ناکام بنایا جاتا ہے وہی اپنے ممالک کے بنیادی مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے سفارتکاروں سے متعلق خطاب میں جن بنیادی باتوں کا ذکر کیا، وہ بلاشبہ سفارتکاروں کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہیں۔
مثال کے طور پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سفارت کاروں کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ایسے اقدامات اُٹھانے چاہئیں جن سے اس قسم کی سرمایہ کاری کی پاکستان میں راہ ہموار ہو۔دوسری اہم بات جو انہوں نے کی وہ اپنے ہم وطنوں کی مدد سے متعلق ہے اگرچہ وزیراعظم نے ان دونوں تحفظات کا اظہار اپنے طور پر اپنے الفاظ میں کیا مگر میں اس کو یہاں سادہ الفاظ میں ہی لکھنا چاہوں گا۔اس کے ساتھ انھوں نے سفارتکاروں کی بنیادی ذمہ داریوں کو اُجاگر کرتے ہوئے بھارتی سفارت کاروں کی مثال بھی دی۔
میں دوبارہ کہنا چاہوں گا بلاشبہ وزیراعظم عمران خان نے جو باتیں کیں وہ سفارتکاروں کے بنیادی فرائض میں سے ہیں مگر اب بات کرتے ہیں کہ بھارتی سفارت کاروں اور پاکستانی سفارت کاروں کو اپنی سفارتی ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے کس حد تک آزادی حاصل ہے۔ کسی بھی ملک کے سفارت کاروں کو اپنی سفارت کاری کے جوہر دکھانے کے لئے اپنے بنیادی ادارے یعنی دفتر خارجہ کی سپورٹ کی ازحد ضرورت ہوتی ہے۔وزیراعظم صاحب ہم لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کا دفتر خارجہ اور بھارت کا دفتر خارجہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کس حد تک آزادہے۔جہاں آپ نے بھارتی سفارت کاروں کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے پاکستانی سفارتکاروں کو نالائق ثابت کرنے کی کوشش کی وہیں آپ کو کھل کر پاکستان کے دفتر خارجہ بلکہ وزیر خارجہ کی سرزنش بھی کرنی چاہئے تھی۔بھارتی دفتر خارجہ کس حد تک مضبوط ہے اس کی ایک مثال ہمیں بھارتی وزیر اعظم کے ایک ٹی وی شو میں بیان کیے گئے اس واقعہ سے بھی ملتی ہے جب نواز شریف نے انہیں اپنی پوتی کی شادی میں شرکت کے لیے لئے ذاتی طور پر لاہور آنے کی دعوت دی تو وہ افغانستان سے بھارت کے لیے روانہ ہورہے تھے، اس کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نے اپنے خارجہ امور سے متعلق تمام حکام کی رائے کا جاننا ضروری سمجھا اور ان سے رائے لینے کے بعد لاہور آنے کا فیصلہ کیا۔کیا پاکستان کے دفتر خارجہ کو کبھی اس قابل سمجھا گیا ہے کہ پاکستان کے کبھی بھی کسی وزیر اعظم نے خارجہ امور سے متعلق کوئی قدم اُٹھانے سے قبل خارجہ امور کے لیے رکھے گئے ان حکام سے مشاورت کی ہو اور فرض کر لیجئے اگر کبھی کی بھی جاتی ہو تو اس کو عزت افزائی بھی بخشی گئی ہو۔جب بھارتی دفتر خارجہ اپنے سفارتکاروں اپنے خارجہ امور سے متعلق فرائض انجام دینے کے لئے مکمل سپورٹ کرتا ہے تو اس کا نتیجہ بھی سفارت کاری کے بہتر نتائج کی صورت میں سامنے آتا ہے اور اگر کبھی کوئی سفارتخانہ اپنے کسی فرض کی انجام دہی میں ناکام بھی ہو تو بھارتی دفتر خارجہ اپنے طور پر اس کا جائزہ لے کر وجوہات جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ آیا کوئی اور ادارہ خارجہ امور پر اثرانداز تو نہیں ہو رہا۔
میں سمجھتا ہوں کہ صحافی اور سفارت کار جب تک ایمانداری سے کھلے ذہن اور آزادی کے ساتھ اپنے فرائض انجام نہ دے سکے تو انہیں لاکھ آسائشیں بھی دے دیں یہ آپ کو کبھی مثبت نتائج نہیں دے سکتے۔پاکستانی سفارت کاروں کی نااہلی اور نالائقی کے پیچھے ایک بڑی وجہ دفتر خارجہ کا ان پر وہ دباؤ منتقل کرنا ہے جو پاکستان میں دفتر خارجہ پر دیگر اداروں کی جانب سے ڈالا جاتا ہے۔
پاکستانی سفارت کار ،سفارتکاری کم اور حکم بجا آوری کا کام زیادہ کرتے ہیں ، وزیراعظم صاحب اگر آپ سفارتکاروں سے بہتر نتائج کی توقع کرتے ہیں تو سب سے پہلے دفتر خارجہ کو واقعی آزاد بنائیں تاکہ خارجہ امور سے متعلق جو مہارت ان افسران یا سفارت کاروں میں موجود ہے اس کو مثبت طور پر قابل عمل بنایا جا سکے۔
ایک بات پر مجھے حیرت غرور ہے کہ وزیراعظم نے جس طرح سعودی عرب نے پاکستانی سفارت کار راجہ علی اعجاز دبے لفظوں میں تنقید کا نشانہ بنایا، اس پر نہ صرف سعودی عرب بلکہ نیویارک میں بھی پاکستانی کمیونٹی نے خاصا تشویش کا اظہار کیا، جن لوگوں نے راجہ علی اعجاز کو دیکھا ہے یا ان کی سفارت کاری سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ وزیر اعظم نے جن دو تین نقاط کے ذریعے سفارتکاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا، راجہ علی اعجاز ان میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ راجہ علی اعجاز جہاں بھی رہے اس ملک میں پاکستانی کمیونٹی کو نہ صرف متحد کیا بلکہ ان کے مسائل حل کرنے میں خاصی دلچسپی لینے والے سفارتکاروں میں شمار ہوتے تھے، اس کے علاوہ جہاں بھی جاتے لوگوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے قائل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے۔مجھے آج بھی حیرت ہوتی ہے اور اس سوال کا جواب نہیں مل پا رہا کہ ایک اتنے قابل سفارت کار کی وں اس طرح تضحیک کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟اپنے ہی ملک کے وزیراعظم کی جانب سے عملی طور پر اقدام اُٹھانے کی بجائے یو ںسرعام بد نام کرنے کے بعد لوگ کہیں یہ نہ سوچنا شروع ہوجائیں کہ ہمارے پاس سفارت کار ہیں یا سیاہ کار ہیں؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here