پاکستان کے قیام سے اب تک کئی صدور ، وزرائے اعظم اور فوجی سربراہان اقتدار میںآ چکے ہیں جن میں سے ذوالفقار علی بھٹو ، ایوب خان اور ضیاالحق کوقدرے ذہین اور شاطر حکمران قرار دیا جا سکتا ہے لیکن موجودہ دور کے لحاظ سے اس وقت پاکستان کو ایک سمارٹ وزیراعظم کی ضرورت ہے جو اندرونی اور بیرونی طور پرسیاست کو نہ صرف جانتا بلکہ اچھا کھلاڑی ہو ، موجودہ وزیراعظم عمران خان صرف ایک نڈر حکمران ہے جبکہ اندرونی و بیرونی سیاست میں وہ مکمل طور پر ناکام ہے، ان کی ٹیم میں بھی کوئی ایسا اہل کھلاڑی نہیں ہے ، ضیاالحق کی ذہانت دیکھیں کہ اس نے فوجی وردی اتار کر جب صدارت کی شیروانی پہنی تو پاکستان کے ذہین لوگوں کی ایک مشاورتی ٹیم تشکیل دی ، جب کوئی مسئلہ آتا تو وہ اس مشاورتی ٹیم کی رائے تو لیتا لیکن کسی کو بھی اپنے سر پرہاوی نہ ہونے دیتا ، عمران خان میں ہٹ دھرمی ہے جس کی وجہ سے نہ ملک کے اندر بہتری آئی ہے اور نہ ہی بیرون ملک میں خارجہ معاملات میں کامیابی ملنے کا چانس ہے ۔ملک میںمہنگائی کی شرح 9سال کی بلندترین سطح 12.7فیصد تک پہنچ گئی ہے ، نومبر میں شہری علاقوں میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں 16.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ماہانہ اعتبار سے یہ اضافہ 2.4 فیصد رہا، اسی طرح دیہی علاقوں میں سالانہ اعتبار سے مہنگائی میں 19.3 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ ماہانہ بنیاد پر یہ اضافہ 3.4 فیصد رہا۔ملک پر قرضوںکا بوجھ 10ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے ،پاکستان سٹاک ایکسچنج میں رجسٹرڈ لارج سکیل مینوفیکچرنگ کمپنیوں میں سے 60 فیصد سے زائد کمپنیاں اس وقت مکمل بند ہیں اور باقی چالیس فیصد میں جزوی طور پر کام جاری ہے جبکہ ایک کروڑ سے زائد افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے ۔مقامی سروے کے مطابق 40 فیصد پاکستانیوں نے وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا جبکہ37 فیصد نے کارکردگی پر اطمینان کا اظہا ر کیا ،63 فیصد افراد نے ملکی معیشت کی سمت کو غلط کہا، 46 فیصد نے وزیر اعظم عمران خان کے ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کے دعوے پر بھی اعتبار نہ کیا،96 فیصد پاکستانی مہنگائی سے بھی پریشان نظر آئے۔ 46 فیصد نے ملک کے خراب معاشی حالات کا ذمہ دار موجودہ حکومت کی پالیسیز تو 37 فیصد نے پچھلی حکومتوں کو ٹھرایا۔یہ تمام عوام ملک کے ایک ناتجربہ کار حکمران کے زیر سایہ چلنے کے اعشارے ہیں جس سے مستقبل میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے ، عمران کے پاس مشیروں کی بہت بڑی ٹیم ہے لیکن حکومتی تجربہ کسی کے پاس نہیں ہے ، چند پرانے گھوڑے جو ہر حکومتوں میں نظر آتے تھے وہ یہاں بھی نظر آتے ہیں، یہی حال اپوزیشن کی تمام جماعتوںکا ہے ہم بیرون ملک پاکستانی جو پاکستان کی سلامتی کے لیے ہمیشہ دعا گو رہتے ہیں ، سخت تذبذب کا شکار ہیں ، عمران خان کے لیے بہتر یہی ہوگا وہ بیرون ملک سفیروں کو جھاڑنے کے بدلے ان کو کوئی لائحہ عمل تیار کر کے دیں ،ہوا میں تیر چلانے سے کام نہیں چلتا ، فارن بیورو کریٹس کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی خارجہ پالیسیاں کامیاب ہوتی ہیں ، اندرون ملک مہنگائی اور قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں ،تمام شہریوں کی زندگیوں کا برُا حال ہے ، کسی کی زندگی محفوظ نہیں ہے ، مہنگائی پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے ، بے روزگاری سکائی ہائز تک پہنچ چکی ہے جب عام آدمی کی زندگی محفوظ نہ ہو تو قصور وار حکمران ہوتے ہیں، ایجنسیوں کو چاہئے کہ وہ سوچیں کیا عام آدمی خوشحال ہے ؟ کیا عام پاکستانی محفوط ہے ؟کیا عام پاکستانی کو روزگار مل رہا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پاکستان سے محبت کرنے والوں کی محبت میں بہت کمی آئے گی ، ایسے وقت میں ان کا دشمن تاک میں بیٹھا ہے اگر پاکستان پر برُا وقت آیاتو عام پاکستانی اس مشکل وقت میں کیسے کھڑا ہوگا؟ اس بارے میں سوچنا ضروری ہے یہی لمحہ فکریہ ہے ،خان صاحب ہوش کریں ، ملک چلانا اور کرکٹ کی ٹیم چلانے میںبہت فرق ہوتا ہے ۔عام آدمی کو مطمئن کرنا اس وقت حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ،حکومت کو چاہئے کہ عوامی فلاح کے منصوبے شروع کرے ، متوسط طبقے کے مسائل کو حل کرنے میں کردار ادا کرے ورنہ عوام کا ایساسیلاب سڑکوںپر اُمڈے گا جواپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو ساتھ بہا لے جائے گا کیونکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لیبریز ہو رہا ہے جن لوگوںنے نئے پاکستان اور ملک میں تبدیلی کے لیے ووٹ دیاتھا وہ پرانے ، دقیا نوسی چہرے دوبارہ سے حکومت میں دیکھ کر آگ بگولہ ہو رہے ہیں۔
٭٭٭
*♥️عيد مبارك*🌙
*تقبل الله منا و منكم صالح الاعمال…آمين🤲*