فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو چار برس کے انتظار کے بعد گرے لسٹ سے نکال دیا ہے۔ اس خبر نے حکومت اور عوام کو خوش کن اطمینان عطا کیا ہے ۔بجا طور پر اس کا سہرا پی ٹی آئی حکومت، پاک فوج اور آخر دم کی کوششوںکیلئے موجودہ حکومت کے سر بندھتا ہے۔پاکستان اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے درمیان معاملات خراب ہونے کی پوری تاریخ ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں نے ابتدا میں اس جانب توجہ تو دی لیکن اس طرح ذمہ داری ادا نہ کر سکیں جس کا ایف اے ٹی ایف مطالبہ کر رہا تھا۔سن 2008 میں ایف اے ٹی ایف نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں پاکستان میں منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف نظام موثر نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا ۔اس کے بعد پاکستان مانیٹرنگ لسٹ میں آ گیا۔ ایک سال میں تین بار ادارے کی جانب سے بیانات جاری ہوئے اور خدشہ ظاہر ہوا کہ پاکستان کی وجہ سے منی لانڈرنگ ہو سکتی ہے اور دہشت گردی کی مالی معاونت ہو سکتی ہے۔اس زمانے میں دہشتگردی کے خلاف جنگ عروج پر تھی اس لئے ادارے کے خدشات سنگین نوعیت کے تھے۔ اگلے برس 25 فروری 2009 کو ایف اے ٹی ایف نے پاکستان سے کہا کہ وہ منی لانڈرنگ کے معاملے پر ورلڈ بینک اور ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ مکمل تعاون بھی کرے۔سن 2010 میں جہاں پاکستان میں اعلی سیاسی قیادت کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کی تجاویز پر ایکشن پلان دینے کے بعد ملک کو گرے لسٹ سے نکال دیاگیا تاہم بتایا گیا کہ پاکستان کوابھی کچھ اور اقدامات کرنا ہوں گے۔ ان اقدامات میں کراس بارڈر کیش ٹرانسفر پر کنٹرول، دہشت گردوں کے اثاثوں کا پتہ لگانے اور ان کو منجمد کرنے کے لیے مربوط طریقہ کار بھی شامل تھا۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اگلے تین برس کے دوران پاکستان کے ایکشن پلان پر عدم اطمینان کا اظہار جاری رہا۔ 2013 میں پاکستان سے کہا گیا کہ وہ موثر قانون سازی کرے اور یقینی بنائے کہ اس نے ایف اے ٹی ایف کے معیار کے مطابق اقدامات کیے ہیں۔ 2014 میں ایف اے ٹی ایف نے کہا کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس کو باضابطہ طور پر قانون کا درجہ دے۔ 2015 میں پاکستان مانیٹرنگ لسٹ سے نکل آیا۔ 2018 میں پاکستان ایک مرتبہ پھر گرے لسٹ میں چلا گیا۔ 2019، 2020 اور 2021 میں بھی یہی صورتحال رہی رواں برس جون جولائی میں ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستانی اقدامات پر بھرپور اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔امید پیدا ہوئی کہ اگلے اجلاس میں اس شکنجے سے نجات مل جائے گی ۔ ایف اے ٹی ایف سے نجات کے لئے دوست ممالک کا تعاون یاد رہنا چاہئے ۔پاکستان کو بلیک لسٹ سے بچانے کے لیے چین، ترکی اور ملائشیا نے ووٹ دیے اور شروع سے آخر تک کھڑے رہے۔بھارت پاکستان کے مفادات کے خلاف سرگرم رہا لیکن پاکستان کی خارجہ مشینری نے قابل قدر کام کیا۔پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں آنے والی سرد مہری نے پاکستان کا انتظار طویل کر دیا۔ سابق حکومت کے وزیر خزانہ حماد اظہر کی قیادت میں ایف اے ٹی ایف کی تیس کے قریب شرائط پوری کرنے کے لئے بڑی محنت کی گئی۔معاشی نقصانات اپنی جگہ لیکن اگر پاکستان کی فسکل پالیسی اور پریکٹس میں اگر کچھ نقائص تھے جن کو دہشت گروں کی معاونت کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا تو انھیں دور کیا گیا۔ سٹیٹ بینک سے لے کر بینکوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں تک کا کردار اس سلسلے میں اہم رہاہے۔بینکوں کو پہلی بار عادت پڑی کہ وہ صارفین کی بائیو میٹرک کے ذریعے شناخت کریں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی پالیسیوں کو دیکھا، مقدمات میں جو خامیاں تھیں انھیں دور کیا گیا۔ پاکستان کی معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے میں ان اقدامات سے مدد ملی۔ ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے قومی سلامتی متاثر ہو رہی تھی۔ سیاسی سطح پر ہم آہنگی کا فقدان تھا اس لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومت کی درخواست پر خصوصی سیل جی ایچ کیو میں قائم کیا۔تیس سے زائد محکموں ، وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان کوآرڈینیشن کا میکنزم بنایا گیا، سیل نے دن رات کام کر کے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ پر موثر لائحہ عمل ترتیب دیا جس پر تمام اداروں نے عمل کیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے ترسیلات میں تاریخی بہتری آئی۔یو ںپاک فوج نے ایک بڑے خطرے سے نجات کے لئے مستحسن کردار ادا کیا ۔ ایف اے ٹی ایف بین الاقوامی سطح پر شفاف مالیاتی لین دین یقینی بنانے کا ذمہ دار ہے ۔یہ ادارہ اس امر کی نگرانی کرتا ہے کہ رقوم کی منتقلی کے دوران دہشت گرد اور منی لانڈرنگ میں ملوث افراد نظام کی کمزوریوں سے فائدہ نہ اٹھائیں ۔کوئی ملک بھی گرے لسٹ میں نہیں رہنا چاہتا ۔پاکستان جیسے ملک کے لئے گرے لسٹ میں رہنا ایک بھیانک خواب تھا۔ اس لسٹ میں موجودگی سے کئی چیلنجز لاحق ہوتے ہیں ۔ اس کے اثرات متعدد پہلو سے قومی ترقی اور مالیاتی نظام کو ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ عالمی برادری میں پر امن ہونے کی ساکھ بھی داو پر لگی رہتی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم ہوتا ہے۔ یقینا پاکستان بین الاقوامی ریگیولیٹری سسٹم کے ساتھ انگیج رہنا چاہے گا کیونکہ تارکین وطن کی سالانہ تیس ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات،سرمایہ کاری اور تجارتی عمل اس کی شرائط سے متاثر ہوتے ہیں۔
٭٭٭