کچھ بیووقوف سردار مل کر ایک اونٹ کو بلڈنگ کے 20 ویں فلور پر چڑھانے کی کوشش کر رہے تھے۔کسی شخص نے پوچھا سردار جی اونٹ کو اتنی اوپر کیوں لیجارہے ہو۔؟ بڑے سردار نے جواب دیا اس کو ذبیح کرنا ہے اور چھری چھت پر پڑی ہے۔قارئین!۔ ایک چور قصائی جس نے پاکستانی قوم کو تیس سال ذبیح کیا ہے ۔ وہ لندن سے پاکستان نہیں آرہا۔ چنانچہ ساری کابینہ کے ن لیگی بکروں کو لندن قصائی کے پاس لیجایا گیا ہے۔ پاکستان کاکیپیٹل اسلام آباد ہے لیکن کابینہ کی میٹنگ لنڈن ایک مجرم کی صدارت میں منعقد کیا گیا۔ کیا وزیراعظم اور ان وزرا کو کچھ شرم، حیا اور غیرت ھے کہ ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں اجلاس کرتے پھر رہے ہیں۔ امپورٹیڈ حکومت کے مجرمین گزشتہ دنوں لنڈن طلب کئے گئے۔بڑے مجرم کے سامنے ڈاکو، چور اور قاتل بھاشن سنتے رہے۔ یہ ھمارے قومی مجرم آج وزیراعظم ، وزیراعلی، وزیرِداخلہ، وزیر دفاع، بنے بیٹھے ہیں ۔ میرے اللہ کا وعدہ ہے ۔ جیسی رعایا ھوگی ویسے ہی حکمران مسلط کرئے گا ۔ مودی کے رشتہ داروں نے اقتدار میں آتے ہی بھارت کو تجارتی راہداری اور سامان کی ترسیل کی اجازت دے دی ہے۔شہباز شریف نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا۔ ایک طرف کشمیری سینوں میں گولیاں کھا رہے ہیں دوسری طرف موجودہ حکومت نے بھارت سے ٹریڈ شروع کرکے پوری کشمیری قوم کے دل کو زخمی کیا ہے۔یہ دھوکے باز کب تک کشمیریوں سے غداری کرینگے۔مریم نواز کے پاس ججز، بیوروکریٹس اور جرنیلوں کی وڈیوز پہنچتی ہیں۔ کیا مریم کے پاس ایسے ایکسپرٹس کی ٹیم ہے جو جرنیلوں ، ججز اور بڑے عہدوں پر بیٹھے سانپوں کی بیہودہ وڈیوز، ننگی تصویریں بناتے ہیں۔ کیا کسی عورت کو ایسا کام ذیب دیتا ہے۔ کیا ایسی عورت با حیا عورت کہلانے کا حق رکھتی ھے۔؟ کیا ایسی عورت مملکت خداداد کی وزیراعظم بننے کے قابل ہے۔؟ صبح سات بجے دفتر پہنچنے والا وزیراعظم پاکستان (میاں تیز شریف )گزشتہ چھ روز سے لنڈن بیٹھا ہے۔ امور مملکت چلانے کے لئے عطار کے لونڈے سے دوائی لینے کرائم منسٹر لنڈن وزرا کی فوج لیکر پہنچے۔کسی خفیہ مقام پر میٹنگز ہوئیں ۔ تاکہ پاکستانی عوام ان مجرموں کا پیچھا نہ کرسکے۔ کل کی نقلی اسمبلیاں آج اچانک اصلی ھو گئیں۔سلیکٹڈ آٹ اور الیکٹڈ امپورٹیڈ ھوگئے۔ گزشتہ دنوں مہنگائی پر بولنے والے لفافے صحافی آجکل خاموش ہیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ بیچارے مر گئے ہیں انکی تدفین کا انتظار ہے۔جس دن اس ملک کے صحافی، بیوروکریٹ ، جج ایف آئی اے اور جرنیل بندے کے پتر بن گئے پاکستان صیح سمت پر آ جائے گا۔ان سر کے بچوں نے ملک کو تباہ کردیا ہے۔ موٹر وے ریکارڈ جل گیا ۔ قرض اتارو ملک سنوارو ریکارڈ جل گیا۔ایل ڈی اے ریکارڈ جل گیا۔میٹرو ٹرین ریکارڈ جل گیا۔ سست روٹی اسکیم۔ نندی پور پاور پلانٹ کا ریکارڈ جل گیا۔ نیلم جہلم ریکارڈ ۔ دانش سکول ریکارڈ جل گیا ۔ کیا کسی جج نے قومی خزانے کی اتنی بڑی کرپشن اور شریفوں کے بڑے پراجیکٹس کے ریکارڈ جلنے کا سو موٹو لیا۔ عمران کے دور میں بڑی بڑی کرپشن ھوئیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔آٹا خور، چینی چور، آدم خور،بھتہ خور ،اے ٹی ایم سبھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہیں۔ نا تو مولانا کو ڈیزل کی قلت کی پریشانی، نہ ہی شوگر مافیا کو پریشانی اور نہ ہی سندھیوں کو دو ملین ٹن گندم چوہوں کے سپرد کرنے کی فکر۔
اور نہ ہی شہباز شریف کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر زرداری کو گھسیٹنا پڑے گا اور نہ ہی پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنا پڑینگے۔
ن لیگ، ایم کیو ایم ،زرداری اور فضل الرحمن آنے والے دنوں میں انتہائی مشکل میں نظر آرہے ہیں۔مریم نواز اپنی پارٹی کے خلاف جلسے کرتی نظر آرہی ہے۔خواجہ آصف ،اسحاق ڈار،مریم نواز جلد الیکشن کی بات کرتے پیں ۔ میاں نواز، شہباز شریف ، زرداری الیکشن رفارمز کء بات کرتے ہیں۔ عقل حیران ہے کہ
ھم اس جاہل معاشرہ میں رہ رہے ہیں جہاں ان پڑھ وزیر تعلیم بن سکتا ہے۔
کریمنل شخص وزیراعظم بن سکتا ہے۔
جرائم پیشہ اور قاتل افراد کے لئے وزیر بننا معمول کی بات ہے۔
ایک سیاستدان جیل میں ھونے کے باوجود الیکشن لڑ سکتا ھے۔ لیکن عام آدمی جیل سے ووٹ نہئں دے سکتا۔
سیاستدان ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑ سکتا ہے ۔ لیکن عام آدمی ایک سے زیادہ ووٹ نہیں دے سکتا۔
اگر کوئی شخص جیل گیا ہو وہ سرکاری عہدہ نہیں لے سکتا۔
لیکن پاکستانی سیاستدان جتنی دفعہ مرضی جیل گیا ھو ، صدر، وزیراعظم، سینٹر ،ایم این اے ،اور ایم پی اے بن سکتا ہے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا کے ھمیں بہت چیلنجز در پیش ہیں۔ان حالات میں فوج کو ٹارگٹ کرنا مناسب نہیں۔
میرا آئی ایس پی آر سے سوال ہے کہ آپ لوگ اپنے آپ کو اپنے پروفیشن تک محدود کیوں نہیں رکھتے۔حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ آپ ہی توکرتے ہیں۔ جب آپ امریکہ،مادر پدر آزاد لبرل طبقہ کو بیک وقت خوش رکھنا چاہتے ہیں تو آپ پر سوال تو اٹھیں گے۔
کیا آپکا انکا کام ہر سال نیا گانا ریلیز کرنا ہے، عوام کے اموشن سے کھیلنا ہے۔
ان میں غیرت اتنی ہے کہ عافیہ صدیقہ امریکی قید میں ہے۔ اسے واپس لاتے۔؟مگراپنے آپکو غیرت مند سپہ سالار کہتے ہیں۔ سارے گند کے پیچھے یہی تھے اور ہیں مگر کہتے ہیں ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔
الیکشن چونکہ آرمی کے انڈر ھوتے ہیں۔ آرمی ہر الیکشن میں جو گھنانا کھیل کھیلتی ہے ۔ اسکے اثرات عوامی مینڈٹ پر ڈاکہ کی شکل میں پڑتے ہیں۔ جس کا خمیازہ قوم بھگتتی ہے۔جس سے حکومتیں کمزور بنتی ہیں۔جب آپکا ملک داخلی مخاذ کمزورہوگا۔ معاشی طور پر کمزور ہوگا۔
نہ آپ اندرونی اور نہ بیرونی دہشت گردی کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
جرنیل ،نواز شریف اور زرداری خاندان کے کانے ھیں ان بے شرموں نے مال کھایا ہوا ہے۔ مراعات لی ہوئی ہیں ۔ انکی دونوں پارٹیوں سے مال کھایا ہے، بیرون ملک گھر لئے ہیں ، انکی وڈیوز مریم نوازکے پاس ہیں ۔اسلئے فوجی جرنیل کرپٹ مافیا سے روزانہ گالیاں سنتے ہیں ۔
یہ اپنی عزت کو بے توقیر کرتے ہیں ۔ پوری فوج کو گالیاں چند گندے انڈوں کی وجہ سے پڑتی ہیں۔ کسی جرنیل، کسی سیاستدان، کسی جج اور بیوروکریٹ سے اسکی دولت کا حساب اس لئے نہیں لیا جاسکتا کیونکہ تمام چور آپس میں ایک ہیں۔ کشکول لیکر گھومنے والے کھرب پتی حکمرانوں کو اگر عوام کا درد ہو تو اپنی دولت ملک میں لائیں۔دو بڑے سیاسی خاندان ،پورے پاکستان کی پچاس فیصد ، پولڑی، چینی ، دودھ،لوہا اور سیمنٹ کے مالک ہیں۔ انکے رشتہ دار بجلی اور گیا کے منصوبوں کے مالک ہیں۔ یہی چند خاندان، مہنگائی اور افراط زر کے مجب ہیں۔ چولستان اور تھر میں جانوراور انسان ایک ہی جگہ پانی پیتے تھے۔آج وہاں پانی بالکل دستیاب نہیں۔جو لوگ وہاں سے منتحب ھو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔عوام کو انکا گھیرا کرنا چاہئے۔کیونکہ یہ ظالم عوامی فنڈز ہڑپ کر جاتے ہیں۔ انکے خلاف کوئی سوموٹو نہیں۔
ستر سال میں ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ ہماری الیکشن رفارمز کیا ہونی چاہئیں۔جوڈیشل سسٹم کیا ہونا چاہئے۔ پولیس رفارمز میں کیسے بہتری لائی جائے۔ قانون کی نظر میں امیر غریب سبھی برابر ہوں؟
کرپٹ سیاسی گماشتوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
مریم نواز کا کہنا ہے کہ اسے آرمی چیف نہ لگایا جائے جس کا ماضی داغدار ھو۔محترمہ نے درست فرمایا ۔ لیکن اپنے باپ کے بارے بھی بتا دیتیں کہ کیا پاکستان پر حکومت کرنے والے لیڈر کی ساری زندگی چوری،منی لانڈرنگ اور لوٹ مار میں گزری ہو ۔ اس کا ماضی داغدار ھوتا ہے یا نہیں۔سلطانہ ڈاکو یہ بھول گئی ہیں کہ موجودہ وزیراعظم اور وزیراعلی پر کئی کیس ہیں ۔ انکے ماضی بھی مریم کے پاپا کی طرح داغدار ہیں اور عدالت سے ضمانت پر ہیں۔
بندروں کے ہاتھ میں استرا دے دیا گیاہے۔لفٹروں اور لونڈوں کے ہاتھ میڈیا تھما دیا گیاہے۔جو فیک آئی ڈیز کے ذریعے گالم گلوچ کرتے ہیں۔
تمام اسٹک ہولڈرز کو طرز سیاست میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ہم معاشرتی اور اخلاقی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
پاور اسٹرکچر جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ ہر الیکشن کو رگ کرتے ہیں۔رزلٹ مینج کرتے ہیں۔ایک ایک حلقہ کے رزلٹ کو مینج کرکے نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔خصوصا مذہبی جماعتوں کو پاور اسٹرکچر سے دور رکھا جاتا ہے۔ فوجی ٹولہ نے پاکستان میں اسلامی سوچ کو آج تک پنپنے نہیں دیا ۔اس ٹولے نے بکا اور دنیا دار مولوی کو استعمال کیا۔لیکن یہ ٹولہ لبرل، سیکولر ،کرپٹ مافیا،اور لینڈ مافیا کا پشتبان ہے۔انہی کی وجہ بے حیا اور بے ایمان لوگوں کی اکثریت اسمبلیوں میں پہنچتی ہے۔انہی کی وجہ سے عدالتوں کے فیصلے طاقتور کے حق میں ہوتے ہیں۔کمزور انصاف کے لئے تین نسلیں گنوا دیتا ہے۔
معاشرہ میں پولرائزیشن نے جڑیں گاڑ لی ہیں۔ گلی گلی گھر گھر نفرت کی دیواریں کھڑی ھوچکی ہیں۔ بھائی بھائی سے اور باپ بیٹا سے نہیں مل رہا۔ پارٹی سی محبت نے رشتوں میں دڑاڑیں ڈال دی ہیں۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ امپورٹیڈ حکومت کے خلاف نہ نکلے تو تمہیں پوچھا جائے گا۔
علامہ عمران صاحب سے کوئی یہ پوچھے کہ پونے چار سال اقتدار میں رہے کیا آپ سے ساہیوال کے مقتولین کے بارے نہیں پوچھا جائے گا۔ موٹر وے پر ھونے والے اندوہناک واقعات پر نہیں پوچھا جائے گا۔
مہنگائی،اور غریبوں کی کسمپرسی کے بارے نہیں پوچھا جائے گا۔؟
عمران خان پونے چار سال بغیر کسی معاشی پالیسی کے اقتدار میں رہے۔ نہ انکے پاس کوئء معاشی پالیسی تھی اور نہ ہی مکس اچار گروپ کے پاس کوئی معاشی پالیسی ہے۔
ان کی پالیسی عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنا تھا۔اب انہیں اور انکے سرپرست جرنیلوں کو سمجھ نہیں آرہی ۔کہ آگے کیا کرنا ہے۔؟ اسی خلائی،فسطائی،فضائی اور طلسماتی مخلوق نے معاشرے کو برباد کیا ہے۔اور یہ کہتے ہیں ھمیں سیاست سے دور رکھا جائے۔
عمران خان اقتدار سے علیحدگی کے بعد انتہائی ڈیپریشن میں ہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ ایک ایک میر جعفر انکے دماغ پر نقش ہے۔ انکے نزدیک اس ملک میں واحد وہی پارسائی ہیں۔ وہی آخری امید اور وہی حق پر ہیں۔ جو وزیراعظم بن کر معاشرے کو پاک صاف کردینگے، حقیقی آزادی کے لئے انہیں صرف وزیراعظم بننا ہے۔
قوم کو اصل مجرموں ، عدلیہ، اور فوج کے خلاف نکلناہوگا جو اصل بیماری کی جڑ ہیں۔ جن کی وجہ سے ڈیموکریٹک سوسائٹی پنپ نہیں سکی۔ جو قاتلوں ،دہشت گردوں،بھتہ خوروں ،ڈاکوں اور کرپٹ سیاستدانوں کو (NRO) دیتے ہیں۔ جس ملک کے 25,000 ہزار سرکاری ملازمین دوہری شہریت رکھتے ہوں ۔ ہر ادارہ اور ہر پراجیکٹس میں kickbacks ہے ۔کیا وہ اپنی توانائیاں پاکستان میں صرف کرنا پسند کرینگے۔؟ 17 سے 22 گریڈ کی سینکڑوں بیوروکریٹ جو ملی پالیسیز بنانے میں معاونت کرتے ہیں۔فرعونی طبعیت کے مالک ہیں۔ کیونکہ احتساب اور ایف آئی اے کے ادارے بکا مال ہیں ۔ جو اپنا ضمیر بیچ کر معاشرتی طور پر ملک کو کھوکھلا کر چکے ہیں۔ ان کو سولی پر لٹکانا ہوگا۔ وگرنہ رونا دھونا ھمارا مقدر رہے گا۔ ان چلے ہوئے سیاسی کارتوسوں کو ھم کئی بار آزما چکے ہیں۔
خدا کی قسم اگر اقتدار جماعت اسلامی کے ہاتھ میں ہو، نہ کرپشن ہو گی اور نہ کِک بیکس۔جرنیلی مافیا جماعت اسلامی کو اقتدار سے اس لئے دور رکھتا ہے ، کیونکہ جماعت اسلامی نہ کرپٹ ہے اور نہ ان بدمعاشوں کو کرپشن کرنے دے گی۔پاکستان میں نظریہ کی خفاظت، اثاثوں کی خفاظت ،کرپشن سے چھٹکارا، مجرموں کو سزا صرف جماعت اسلامی دے سکتی ہے۔
٭٭٭