امریکہ میں بگڑتے اور نیچے گرتے معاشی حالات مستقبل میں برُے وقت کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔پہلے کووڈ19نے دنیا بھر میں ہر ملک میں بگاڑ پیدا کیا اور خوردنی اشیاء سے لے کر ہر چیز کی کمیابی نے قیمتوں کو دوگنا کردیا۔فیکٹری بند لوگ کام پر نہیں آرہے یورپ میں سیاحت کا شعبہ تباہی سے دوچار ہوا امریکن جو گھر میں ٹک کر بیٹھنا نہیں جانتے گھر میں بیٹھے بیٹھے تنگ آگئے، بڑی بڑی کمپنیوں حتٰی کہ گورنمنٹ دفاترمیں لوگوں کی حاضری کم اور انہیں گھر پر کام کرنے کی اجازت اور اطلاع دی گئی کارپوریشنز نے ان حالات میں آفس بند کرکے منافع خوری کا باب کھول دیا۔AIR BNBنے تو اپنے تمام آفس بند کرکے لوگوں کو گھر سے کام کرنے کی جازت دے دی دونوں کا فائدہ لیکن صارفین کے لئے مہنگا سودا کہ کاغذ کے استعمال کی جگہ ای میل پر آپ کا بل بڑھا چڑھا کر دیا جانے لگا اور شکایت کے دروازے بند کردیئے گئے یا پھر دوسرے ملکوں میں(تھرڈورلڈ)یہ کام سونپا گیا جو طوطے کی زبان رکھتے تھے یہ ایک طرح سے کارپوریشنز کی لوٹ مار بنی جو جاری ہے اور انتظامیہ خاموش یا بے اثر ریاستی لبول یا لوکل لیول پر امریکی عوام بڑی خاموشی سے انکو من مانی کرنے دیتے رہے ہیں اورآئندہ بھی ایسا ہوگا اور بڑھ کر ہوگا کہ انہیں کئی مشکلات کا سامنا درپیش ہے۔کووڈ19کی مہنگائی کے عادی ہونے کے بعد پیٹرول کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔روس کی یوکرین پر چڑھائی اور روس سے خام تیل امپورٹ کی پابندی جو کہ سمندر میں بالٹی کی مانند تھی یعنی8فیصدی سے بھی کم جس کی کبھی ضرورت نہیں تھی کہ امریکہ خود پیٹرولیم میں آگے ہے۔دیکھا جائے تو خودکفیل ہے اور اب شاید سعودی یا مشرق وسطیٰ کی بھی ضرورت نہ ہو۔لیکن پمپ پر تیزی کے ساتھ پورے امریکہ میں قیمت پڑھنا شروع ہوگئی کہ آج اوسط قیمت ایک گیلن(87آکٹین)5ڈالر کا ہے باوجود اس کے کہ بائیڈین صاحب نے امریکہ میں برے وقت کے لئے اسٹور آئل(180ملین گیلن)کو کھول کر ہر روز ایک ملین بیرل استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی لیکن پمپ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا دوسرے معنوں میں یہ کھلی دھاندلی ہے کارپوریشنز کی اندازہ کیجئے۔ARAMCOجو کبھی اپنا دفتر امریکہ میں رکھتی تھی اور اب سعودی عریبہ میں ہے نے بیرل کی قیمت110ڈالر کرکے سہ ماہی39.5ارب ڈالر کی آمدنی کی ہے۔شیر ہولڈر بے حد خوش ہیں لیکن صارفین کی چیخیں نکلی ہوئی ہیں کہ چھ ماہ میں دوبارہ قیمتوں میں ہر شہ کی کافی اضافہ ہوا ہے کہ مڈل کلاس طبقہ پس کے رہ گیا ہے ہم سوال کرتے ہیں کیا یہ جمہوریت ہے یا آمریت جواب ملتا ہے امریکہ جیسا بڑا ملک جس کی آبادی33کروڑ ہے۔منافع خوروں اور وال اسٹریٹ میں بڑی بڑی تعلیم گاہوں سے نکلے باشعور لوگوں کے رحم وکرم پر ہے اور چونکہ ان سب کو میڈیا کی سپورٹ ہے اور یہاں کے سیاستدانوں کو ان ہی کارپوریشنز سے اپنے الیکشن میں مالی مدد ملتی ہے۔خاموش ہیں اور یہ سب ایک ہی تھا لی کے بیگن ہیں یا چٹے مٹے ہمیں نہیں غض اس سے کہ رومن یا گریگ یا بازینٹائن کا زوال کیوں اور کیسے آیا۔لیکن یہاں کا زوال(مالی بحران) دیکھ دیکھ کر کڑھن ہوتی ہے ہمیں بار بار ہالی ووڈ کی فلم وال اسٹریٹ کا آخری ڈائیلاگ یاد آتا ہے جب وال اسٹریٹ کے ایک بڑے بروکر کو ہتھکڑی پہنا کر پولیس نے جا رہی ہے تو وہ انگلیوں سےVکا نشان بنا کر کہتا ہےGREED IS GOODاور اسکے بعد آئندہ35سال(جاری ہے)سے یہ لوٹ مار جیسے فلم میں لوٹ مار کا نام دیا ہے۔جاری ہے اور رہیگی جب تک امریکہ کا صافین خود پر پابندی نہیں لگاتا، بے ضرورت خرچ جس میں کاروں کا بے جا استعمال ہے اور یہ ناممکن ہے کہ امریکی کہاوت، ایک زندگی ملی ہے مزے لوٹو۔دوسری بڑی لعنت جو ہیلتھ کیئر نظام ہے جس نے صحت مندوں کو بیمار اور بیمار کو جارپائی سے لگا دیا ہے، بڑھتی ہوئی دوائوں کی قیمتیں ڈاکٹروں کی فیس ہسپتال کا خرچہ آسمان سے اوپر جارہا ہے اور نتیجہ میں انشورنس بڑھ رہی ہے اور ساتھ میں اپنی جیب سے ڈاکٹر اور ہسپتال کو دس ڈالر سے ایک ہزار، انشورنس کے علاوہ جیب سے دینا ہے۔پچھلے50سال میں انتظامیہ کی کمزوری یا بے حسی دیکھنے کو نہیں ملی نتیجے میں50فیصد امریکن پر علاج کی مد میں قرض چڑھا ہوا ہے یہ بھی غور کریں کہ اب ہر امریکن کو جنوری سے24اپریل تک اپنی ساری کمائی گورنمنٹ(فیڈرل، ریاستی اور ٹائون) یعنی ایک تہائی آمدنی یا تنخواہ پر آپ کا اختیار نہیں۔IRSجو ٹیکس وصول کرتا ہے وہ سینئر امریکنز سے انکے سوشل سکیورٹی کے80فیصد پر ٹیکس لیتا ہے اور اسکے علاوہ اگر پنشن ہے تو اس پر بھی انکے دانت لگے رہتے ہیں۔نوجوان نسل اگر وہ اعلیٰ تعلیم(ہائی اسکول کے بعد) کے لئے اچھے اسکول کا انتخاب کرتی ہے تو حکومت کے علاوہ پرائیویٹ نیک سے قرض لیتی ہے۔اور زندگی کے خاصے بڑے حصے تک ادا کرتی ہے آج کا نوجوان جب تعلیم مکمل کرتا ہے تو وہ اوسطاً39.351کا مقروض ہوتا ہے اور ہر ماہ393ڈالرز ادا کرتا ہے۔آج کی تاریخ میں اسٹوڈنیٹ فرض کی مد میں75ء آسٹریلین ڈالرز واجب الادہ ہیں اور یہ لمحہ فکریہ ہے اور بڑھتا رہے گا کہ بڑی کارپوریشن کےCEOکے درمیان منافع خوری اور امریکن کو بے کار کرکے باہر سستے داموں کام کرنے والوں اور ٹیکس میں قانونی جھوٹ لینے کی دوڑ کار ریس کے مانند ہے ملاحظہ کرین تین امریکن کی دولت کار ایلن مسک(الیکٹرک کار)243بلین ڈالرز، جیف بیزوس(AMAZON) 194بلین ڈالرز، بل گیٹس120بلین ڈالرز کے ساتھ امیر ترین اشخاص ہیں اور اتنے ہی غریب امریکن شہری ہیں جو ہر ماہ یا ہفتے تنخواہوں پر زندگی بمشکل تمام گزارتے ہیں۔ کہ آدھی سے زیادہ آبادی مکان نہیں خرید پاتے پھر کرائے اتنے مہنگے کہ ننگا پہنے کیا نچوڑے کیا بالاخر وہ ریاستی اور ملکی امداد کا آسرا رکھتے ہیں۔
امریکہ(سیاست دانوں) کو نئے سرے سے سوچنا ہوگا کہ امریکہ عروج سے پستی کی طرف کیوں جارہا ہے اور بڑی کمپنیوں کو منافع خوری اور ٹیکس سے بچنے کی اجازت کو ختم کرنا پڑے گا ہمیں یہاں رہتے50سال ہو رہے ہیں۔لیکن ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی اور یہ سب جو ہو رہا ہے اسی پیسے کے لالچ کا نتیجہ ہے اور قانون ان کو چھوٹ دیتا ہے کیا یہ نظام ہندوستان کے اٹھارویں صدی کے نظام کی ماڈرن شکل ہے کہ کارپوریشن مہاجن کا کردار ادا کر رہی ہیں اور حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں آئندہ نومبر میں اگر بائیڈن نے کچھ نہ کیا تو میدان ٹرمپ کے ہاتھ میں ہوگا جو سب کی بدمعاشیوں سے واقف ہے کہ وہ خود ایک بزنس مین رہ چکا ہے۔
٭٭٭٭