وائٹ سپرمیسی، گن وائلنس آخر کب تک؟

0
110
مجیب ایس لودھی

بائیڈن حکومت اپنی تمام تر توانائیوں اور اقدامات کے باوجود ابھی تک نفرت آمیز واقعات کی روک تھام میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے ، تمام قومیت اور مذہب کے افراد میں نفرت آمیزی اور مذہبی توہین کے واقعات تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں، امریکہ کو درپیش تیسرا خطرہ گن وائلنس ہے ، تیزی سے پھیلتا اسلحہ معاشرے کے لیے سنگین نتائج مرتب کر رہا ہے جس کیخلاف اقدامات کی ضرورت ہے ۔ امریکا بظاہر روشن خیال، جدت پسند اور انسانی حقوق کا چیمپئن ملک سمجھا جاتا ہے، مگر لاکھوں افراداس غیر انسانی، غیر اخلاقی اور نفرت انگیز نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکا ہی نہیں پورے مغرب میں وائٹ سپرمیسی نظریے کے عاشق و قدر دان پائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر ناروے کا اندرس بریوک جس نے جولائی 2011 ء میں بم دھماکوں اور فائرنگ سے 70افراد مار ڈالے تھے تاہم مغربی میڈیا وائٹ سپرمیسٹوں کے متعلق کم ہی خبریں دیتا ہے جو اس کی منافقت کا نمایاں ثبوت ہے، لندن میں ویگن سواروں کے حالیہ حملے کو مغربی میڈیا نے خوب نمایاں کیا جبکہ پورٹ لینڈ کا واقعہ خبروں میں دبا دیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں کئی عیسائی انتہا پسند گروہ سرگرم عمل ہیں اور یہ سبھی وائٹ سپرمیسی نظریے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ گویا اس نظریے اور عیسائی انتہا پسندی کا چولی دامن جیسا ساتھ ہے، وجہ یہ کہ اس بندھن کی بنیادیں دنیائے مغرب کی مذہبی و معاشی تاریخ میں پوشیدہ ہیں۔ کیلیفورنیا اور نیویارک میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعات بھی اس نفرت آمیزی اور شدت پسندی کی آڑ میں رونما ہوئے ہیں ، نیویارک کے شہر بفلو میں 18 برس کے سفید فام نوجوان نے مارکیٹ میں فائرنگ کر کے کم از کم 13 افراد کو ہلاک کر دیا ، پولیس کے مطابق ہتھیار ڈالنے سے پہلے مسلح شخص پیٹن جینڈرون نے 11 سیاہ فام شہریوں کو فائرنگ سے ہلاک کیا،سفید فام مسلح شخص جس نے حملے کے دوران فوجی طرز کا لباس پہنا ہوا تھانے سپر سٹور کے باہر چار افراد کو گولی ماری، تین افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے ،حملہ آور نے روکنے کی کوشش پر شاپنگ مال کے محافظ کو بھی گولیوںسے بھون ڈالا۔ سیاسی قیادت نے فائرنگ کے واقعے کی شدید مذمت کی جبکہ نیویارک کی گورنر کیتھی ہوچل نے کہا کہ ایک سفید فام جس نے معصوم کمیونٹی کے خلاف جرم کا اتکاب کیا، اپنی بقیہ زندگی سلاخوں کے پیچھے گزارے گا۔پولیس کے مطابق حملہ آور نے رائفل قانونی طور پر خریدی تھی تاہم اس میں جو میگزین استعمال ہوا اس کی نیویارک میں فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔نیویارک کی ڈسٹرکٹ عدالت نے ملزم فرینک جیمز پر نقل و حمل کے نظام پر دہشت گردا حملوں اور دیگر پرتشدد واقعات کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی ، یہ بات قابل غور ہے کہ امریکہ میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعات میں ہر سال تقریباً 40 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں جن میں خودکشیاں بھی شامل ہیں۔ شدت پسندی اور نفرت آمیز ی کا دوسرا واقعہ کیلیفورنیا کے چرچ میں پیش آیاجس کے دوران ایک شخص ہلاک جبکہ 5 افراد زخمی ہوگئے ،پولیس نے مشتبہ شخص کو گرفتار کرکے اسلحہ برآمد کرلیا جبکہ زخمیوں کوہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جن میں سے 4 کی حالت تشویش ناک ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کتنے بے گناہ اور معصوم لوگ اسی قسم کی نفرت آمیزی اور شدت پسندی کے واقعات کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے رہیں گے ، امریکہ میں وائٹ سپرمیسی کا نظریہ انگریزوں کی جانب سے امریکہ پر حملہ آور ہونے کے بعد پروان چڑھا، جب افریقی ممالک سے لاکھوں سیاہ فام غلاموں کو کھیتی باڑی اور دیگر کاموں کے لیے امریکہ لا یا گیا، 1861ء تا 1865ء کے دوران امریکا خانہ جنگی کا نشانہ بنا رہا جس میں تقریباً دس لاکھ امریکی مارے گئے،خانہ جنگی کے بعد بھی افریقی سیاہ فاموں سے ذلت آمیز سلوک جاری رہا کیونکہ سفید فام امریکیوں میں ”وائٹ سپرمیسی” کا نظریہ راسخ ہوچکا تھا۔ آخر مارٹن لوتھر کنگ اور دیگر سیاہ فام رہنماؤں نے وائٹ سپرمیسی کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ تحریک کے نتیجے میں قانونی و آئینی طور پر تو سیاہ فاموں کو ان کے حقوق مل گئے مگر آج بھی معاشرتی و سیاسی سطح پر ان کا استحصال ہوتا ہے۔ نظریہ وائٹ سپرمیسی کے نام لیوا سفید فام قدم قدم پر ایسی نفرت انگیز حرکتیں اپناتے ہیں جن سے سیاہ فاموں، غیر ملکیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو ذلیل کیا جاسکے۔میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ حکومتی سطح پر وائٹ سپرمیسی، گن وائلنس جیسے جرائم کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے ورنہ مستقبل میں یہ امریکہ کی سلامتی کے لیے بڑاخطرہ بن کر اُبھریں گے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here