پاکستان کی سیاست بھی عجب گورکھ دھندہ ہے، یہاں کنگ سے زیادہ کنگ میکر کا زور چلتا ہے، پاکستان میں کنگ میکر کون ہے، یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، یوں سمجھ لیجئے کہ پاکستان آج جس نہج تک پہنچ چکا ہے اس میں کنگ سے زیادہ کنگ میکرز کا کردار ہے، یہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کو مستحکم ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی کسی حکومتی جماعت کو موثر انداز میں حکومت کرنے دیتے ہیں، آج یہ بات پاکستان میں زبان زد عام ہے کہ جس پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہوگا، وہی پاکستان میں ایوان اقتدار کا دُولہا یعنی وزیراعظم ہوگا۔
اب اسٹیبلشمنٹ کے حال کا بھی اللہ ہی حافظ ہے جو آج تک ایک پالیسی نہ بنا سکی، ان کو خود بھی سمجھ نہیں آتی کہ انہوں نے کس طرف جانا ہے، جس کو وزیراعظم بناتے ہیں اسے تسلی دی جاتی ہے کہ امریکہ بلاک میں جانا ہے یا چائنہ کی طرف منہ موڑنا ہے، پاکستان کی عوام کے تسلی کے لیے جھوٹے وعدے بھی کرنے ہیں، عالم اسلام کے جھوٹی نمائندگی کے لیے ریاست مدینہ کے نعرے بھی لگوانے ہیں اور پھر جب کوئی انہی کے دیے ہوئے تقریبا پر من و عن عمل کر رہا ہوتا ہے تو اسے پتہ نہیں کیوں ایوان اقتدار سے نکال باہر کرتے ہیں، نواز شریف کی واپسی کو اگرچہ ماضی کی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر طاقتور لوگوں کے منہ پر تماچہ قرار دیا جا رہا ہے مگر یقین جانیں کہ وہ وقت دوبارہ آئے گا جب میاں نواز شریف ایک بار پھر کہہ رہے ہوں گے کہ مجھے کیوں نکالا ہے۔
دراصل پاکستان میں سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کے کردار کو عوام کے نظروں میں اس قدر مشکوک بنایا جا رہا ہے کہ مستقبل میں جب بھی کبھی کوئی فوجی جرنیل چاہے تو وہ آرام سے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لے، پرویز مشرف مرحوم کی طرح آرام سے اٹھ سال اپنی بادشاہت قائم رکھے اور عوام سیاسی جماعتوں سے اس قدر متنفر ہو جائیں کہ انہیں جمہوری اقدار اور جمہوری قوت کا اندازہ خواب میں بھی نہ ہو، آج ایک بار پھر نواز شریف کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ انہیں مستقبل کا وزیراعظم بنایا جا رہا ہے، یعنی کہ بات اب بھی وہیں ٹھہری ہوئی ہے کہ پاکستان میں کنگ سے زیادہ کنگ میکر کا ہی زور چلتا رہے گا اور ہم لوگ بس بے بسی کے ساتھ اپنے ملک کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھ کر خاموش آہیں بھرتے رہیں گے۔
٭٭٭