مظلوموں کی بددعا !!!

0
69
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

حالیہ تنازعہ جاری ہے، کفر کفر کی کھل کر حمایت کر رہا ہے ،کفر نہ تو کسی مصلحت کا شکار ہوا ہے اور نہ ہی اپنے تعلقات خراب ہونے کا خوف ہے مگر دوسری طرف ہم باوجود مالی، فوجی اور معاشی معاملات میں طاقت ور ہونے کے مصلحت کا شکار ہیں۔ کوئی اسلامی ملک خم ٹھونک کر میدان میں نہیں اترا بلکہ اپنے تعلقات خراب ہونے کے بہانے بنا کر مذمت کرتے ہوئے بھی گھبرا رہے ہیں۔ کھل کھلا کر زبانی حمایت بھی بھاری لگ رہی ہے لوگ اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں۔ مگر عوام نہ تو سفیر کو نکال سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کا راستہ روک کر اپنا مدعا منوا سکتے ہیں۔ اب مظلوموں کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے جھک جائیں اور بددعا کیجئے ہاتھ اٹھا لیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ مظلوم کی آہ اور مالک کریم کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے بظاہر بددعا پانچ لفظوں کا مجموعہ ہے جو زبان سے آسانی سے ادا ہو جاتا ہے۔ مگر اس کے اثرات انتہائی دور ایسے ہوتے ہیں بددعا سے آبادیاں ویرانوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ دولت مندوں کو فقیر بنا دیتی ہے بڑے بڑے پہلوان اپنے وجود کا حسن کھو دیتے ہیں۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں رعونت کے ساتھ رہائش پذیر لوگوں کو بددعا جیل میں سڑنے کے لئے ڈال دیتی ہے۔ ظاہر ہے جب ظلم حد سے بڑھتا ہے۔ تو قدرس کو بھی جلال آجاتا ہے اللہ پاک کے کلام کی معرفت جو ہمیں بددعا کے بارے خبر ملتی ہے وہ حضرت نوح علیہ السلام کی بددعا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو دجلہ اور فرات کے درمیان مبعوث فرمایا ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی۔ مگر قوم نوح ٹس سے مس نہ ہوئی بالآخر حضرت نوح علیہ السلام نے بارگاہ ایزدی میں عرض کی بارالہا میں نے قوم کو ہر طرح سمجھایا۔ قوم نے میرا مذاق اڑایا نہایت ہی بے باکی سے عذاب کا مطالبہ کردیتے جب حضرت نوح علیہ السلام نے بددعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو یہی عرض کیا۔ اے اللہ اس سرزمین پر کسی کافر کا گھر نہ رہنے دے اگر کوئی رہ گیا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریگا۔ اب جو بھی ان کی نسل سے پیدا ہوگا کافر اور گنہگار ہی پیدا ہوگا۔ اے اللہ صفحہ ہستی سے ان کا بیج ہی ختم کردے۔ چنانچہ اللہ رب العزت دعا سن لی۔ آسمان اور زمین دونوں کو حکم دیا۔ اپنا اپنا پانی نکال دو۔ اور جو چند لوگ کشتی میں سوار تھے ان کے علاوہ کوئی بھی عذاب بے بچ نہ سکا۔ سو اے میرے مسلمان بھائیو ہمارا کیا خیال ہے اگر ہم بزدل مصلحت پسند ہوگئے ہیں تو کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا ، جب مظلوم کے ہاتھ دعا کیلئے اُٹھ گئے ،دنیا کا نقشہ ہی بدل جائیگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here