پاکستان میں چینی (شوگر)ایک بنیادی ضرورت کی شے ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ شے سالہا سال سے مافیا کے کنٹرول میں ہے۔ شوگر مافیا نہ صرف چینی کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرتا ہے بلکہ کسان، صارف اور حکومت تینوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ شوگر مافیا کا خاتمہ اگرچہ ایک مشکل چیلنج ہے، لیکن مکمل طور پر ناممکن نہیں۔ اس کے لیے سیاسی عزم، شفافیت، قانونی اصلاحات، اور مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلا قدم حکومت کی سیاسی نیت ہے۔ شوگر مافیا کے خلاف اگر حکومت خود سنجیدہ نہ ہو تو کوئی قانون، کوئی ادارہ کارآمد نہیں ہو سکتا۔ شوگر انڈسٹری میں کئی بااثر سیاستدان اور کاروباری شخصیات براہِ راست یا بالواسطہ ملوث ہیں، جن کے مفادات کو ٹھیس پہنچانا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قانون کی عملداری یقینی بنائے۔دوسرا اہم نکتہ ادارہ جاتی مضبوطی ہے۔ پاکستان میں شوگر مافیا کی سرگرمیاں ایف بی آر، نیب، مسابقتی کمیشن، اور دیگر اداروں کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔ ان اداروں کو مکمل خودمختاری دی جائے اور انہیں سیاسی دبا سے آزاد رکھا جائے تاکہ وہ آزادانہ تفتیش اور کارروائی کر سکیں۔ ایف آئی اے جیسے ادارے اگر ایمانداری سے تحقیقات کریں اور ان پر کوئی اثر انداز نہ ہو تو بڑی پیش رفت ممکن ہے۔ شوگر مافیا کی جڑیں کسانوں کے استحصال سے بھی جڑی ہیں۔ کسان کو اس کی پیداوار کا درست معاوضہ نہیں دیا جاتا، جبکہ فیکٹری مالکان اپنی مرضی کے نرخ مقرر کرتے ہیں۔ اس استحصال کو روکنے کے لیے حکومت کو ڈیجیٹل نظام متعارف کروانا ہوگا جہاں گنے کی خرید و فروخت شفاف ہو، کسان کو ادائیگی بینک اکانٹ کے ذریعے وقت پر ہو، اور اس پر مانیٹرنگ کا مثر نظام ہو۔ اسی طرح چینی کی قیمتوں میں اضافہ روکنے کے لیے حکومت کو ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ سٹہ بازی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف فوری کارروائی ہو، اور ذخیرہ شدہ چینی کی مقدار اور قیمتوں کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ چوتھا حل عوامی شعور ہے۔ جب تک عوام اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کریں گے، مافیا مضبوط ہوتا رہے گا۔ میڈیا، سوشل میڈیا، سول سوسائٹی اور صحافیوں کو اس مسئلے پر آواز اٹھانی چاہیے، تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ چینی کی بڑھتی قیمتوں کے پیچھے کون لوگ ہیں۔ آخری مگر اہم ترین بات یہ ہے کہ عدالتیں اس معاملے میں فعال کردار ادا کریں۔ اگر شوگر مافیا سے جڑے افراد کو سخت سزائیں دی جائیں، اور ان کے خلاف عدالتی فیصلے بروقت آئیں تو اس سے دوسروں کے لیے بھی سبق حاصل ہوگا۔ مجموعی طور پر شوگر مافیا کا خاتمہ صرف ایک شعبے کی اصلاح سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے جامع پالیسی، شفاف نظام، دیانت دار قیادت اور عوامی شرکت ضروری ہے۔ جب تک تمام ادارے ایمانداری اور ہم آہنگی کے ساتھ کام نہیں کریں گے، تب تک شوگر مافیا ملک کے معاشی اور سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور قوم مل کر اس ناسور کا خاتمہ کریں۔
٭٭٭












