ہندوستان ہمارا پڑوسی ملک ہے لیکن وہاں کے سیاستدان دوسری بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف واویلا کرتے رہتے ہیں ، وہاں کی فلم انڈسٹری اور جاوید اختر ایسے لوگ مخالف انداز سے بدنام کرتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہمارا ملک سیاست دان، فلم میکر اور لکھاری ان کا جواب دے سکیں ،شاید ان سب کا مفاد ہندوستان سے ہے لیکن عوام آپس میں جڑے رہتے ہیں پاکستان کے متعدد اداکار خوشی خوشی وہاں کی فلموں میں کام کرتے رہے ہیں۔ کرکٹ میچ اگر دونوں ملکوں کے درمیان کہیں بھی ہو چھ چھ ماہ پہلے تمام اسٹیڈیم ایک ہوجاتا ہے جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوتا ہے لیکن ہر وقت پاکستان سے نہ کھیلنے کا اوچھا ہتھیار استعمال کرتا ہے اورپاکستان ان سے کھیلنے کے لئے جہاں وہ چاہیں چلا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ پٹائی انڈیا کو عمران خان کی کپتانی میں ہوئی تھی اور بری طرح ہندوستان میں ہی ہارے تھے۔ جب سے اب تک ہندوستان نے اپنی کرکٹ کوMevitسے چنائو کیا ہے اور نتیجہ سامنے ہے اور ہم نے فوجی جرنلوں، نااہل چیئرمین کی بھینٹ چڑھایا ہے۔ موجودہ چیئرمین نے تو کرکٹ کا ایسا بیڑا غرق کیا ہے کہ عوام کرکٹ دیکھنا بھول گئے ہیں۔محسن نقوی نے وہ وہ کام کئے ہیں جو کوئی بھی شخص ہوتا نہیں کرتا اور کرتا تو پکڑا جاتا اور اب یہ کرکٹ کا سودا کرتے ہیں تو پکڑے نہیں جاتے یا پھر کھلاڑیوں کو کہا جاتا ہے جیسا میں کہوں وہ کرنا ہے یعنی کس سے جیتنا ہے اور کس سے ہارتا ہے جیتنے کا تو بھو ل جائیے۔ دیکھیں بابراعظم کا کیا حشر ہوا۔ کوئی کہنے والا نہیں، ایسا کبھی نہیں لگا کہ ٹیم جیت سکتی ہے جب کہ وہ جیت سکتی تھی۔ حال ہی میں انگلینڈ کے تیسرے ٹیسٹ میں انڈیا کی کرکٹ دیکھنے کا موقعہ ملا۔ لارڈ کے میدان میں پانچویں دن دوسری اننگ میں انڈیا کو81رنز کی ضرورت تھی، جدیجہ61رنز بنا چکے تھے۔ انہوں نے ٹیم کو جتانے کی ہر ممکن کوشش کی اور چالبازیاں بھی کیں کہ میچ ڈرا ہوجائے اور اسکور بڑھاتے رہیں، آخر میں اُن کے ساتھ سراج تھے جب اسکور24رنز پر پہنچا تو سراج آئوٹ ہوگئے اور انگلینڈ جیت گیا۔ اسے کہتے ہیں کرکٹ اور ایسی کرکٹ پاکستان کھیلتا رہا تھا جاوید میاں داد وسیم اکرم، سعیدانور، شعیب اختر تھے۔ جب کھلاڑیوں کو انکی صلاحیتوں پر لیا جاتا تھا، ہم چاہیں اگر چاہیں تو آج بھی ایسا کرسکتے ہیں، صرف ہندوستان ہی نہیں۔ یہ کہنے میں ہمیں کوئی انکار نہیں۔ ہندوستانی ملک کے باہر اپنے ملک کے لئے کھیلتے ہیں اور کام کریت ہیں آئیں ہم آپ کو بتائیں کہ امریکہ میں ہندوستانی سیاست اور تعلیم کے میدان میں کہاں تک پہنچ چکے ہیں یہ درست ہے کہ ہندوستان پاکستان کے مقابلے میں آبادی کے لحاظ سے پانچ گنا پڑا ملک ہے لیکن ہم کوئی نام نہیں کما چکے ہیں۔ میڈیکل فیلڈ میں آئیں تو انہوں نے ایک فارورڈ گروپ بنایا ہے۔DLGAکے نام سے ورجینیا میں لفٹنٹ گورنر کے لئے فزالہ ہاشمی کو چنا ہے اور ایک ملین خرچ کئے ہیں اور اس وقت تمام ہندوستانی تو ہیں ہی پاکستانی بھی اُن کے لئے کام کر رہے ہیں۔ادھر تعلیمی اداروں میں ان گنت ہندوستانی اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔MITمساچیوسٹ، ہارورڈ یونیورسٹی، نیویارک یونیورسٹی برائوی یونیورسٹی میں ڈین سے لے کر پروسٹ کے عہدے پر تعینات ہیں۔MITکی تاریخ میں پروسٹPROVOSTکے عہدے پر چندرکشن آچکے ہیں۔MIT میں ہی کراچی سے تعلیم حاصل کرکے پارسی فیملی کی نرگس موال والا ڈین ہیں۔ ہارورڈ میں راکیش کھرانہ ڈین ہیں۔ اور یہ سب ایک مسئلہ ہوجاتے ہیں۔ جب کوئی پاکستانی امریکن اسٹوڈینٹ داخلے کا امیدوار ہوتا ہے یہ ڈھکی جب کوئی پاکستانی امریکن اسٹوڈینٹ داخلے کا امیدوار ہوتا ہے یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ وہ ہندوستانی اسٹوڈینٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور تعصب سے بھرے ہوئے ہیں۔پہلے یہ پوسٹ یہودیوں کے پاس ہوتی تھیں اور ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اسی ہفتہ انڈین امریکن صبیح خان نیو اپیل کےCOOبنے ہیں ٹائم میگزین نے بھی2سال میں دو ایڈیشنز میں سو بہترین شخصیات میں۔ ہندوستان کو ترجیح دی ہےTIMEمیگزین سب سے بڑا متعصب ادارہ ہے جس نے عمران خان کو ٹائیٹل پر نہیں دیا۔ایسا لگتا ہے ٹائمز میگزین میں متعصب انڈین قدم جما چکے ہیں جس کا ثبوت اس دفعہ چار انڈین کو سو بڑی شخصیات میں رکھا گیا ہے۔ ہم پچھلے٤٥سال سے اس میگزین کے سبکرائبر تھے اور ایک سال پہلے بائیکاٹ کر چکے ہیں۔رشی سونک انگلینڈ کی وزارت عظمیٰ سے نکلنے کے بعد یہاں گولڈمین سیکGOLDMAN SACNSملازم ہوچکے ہیں۔ اور اپنی پہلی سیلری وہ رچمنڈ پروجیکٹ کو دینگے جو اُن کی اور بیوی کی ہے۔
ایک اور خبر کہ عامر خان مشہور اداکار نے ایک مشکل کام کا بیڑا اُٹھایا ہے کہ اگلے ماہ سے وہ رامائن کی فلمبندی شروع کر رہے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ وہ اسلام اور پیغمبر محمد رضی اللہ تعالیٰ پر بننے والی فلموں پر مسلمانوں کا سلوک دیکھ چکے ہیں وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سینما ایک نہایت ہی پاور فل میڈیا ہے جو پاکستانی سمجھنے سے قاصر ہیں ظاہر ہے رامائن کو مسلمان بھی دیکھنا چاہینگے۔ اور دنیا بھر میں اس کا پرچہ اور تشہیر ہوگی۔ رامائن، شہزادے رامائن جو دیوتا وشنو کا اوتا رہے اپنی بیوی کو بچانے کی کوشش میں جاتا ہے۔ رامائن کی کہانی پر ہندوستان میں بیسووں ٹی وی اور دوسری فلمیں بن چکی ہیں لیکن عامر خان اسے یادگار کردینگے۔ لکھنے سے مراد یہ نہیں کہ ہم وشنو یارام کے چاہنے والے ہیں۔ یہ کہانی بھی الف لیلوی داستان سے متاثر ہے جس میں اچھائی اور بدی میں مقابلہ ہے۔ یہ سب باتیں لکھنے کا مطلب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہم پاکساتنیوں کو ہر شعبہ میں ایماندار ہوکر کچھ کرنا چاہئے۔ چاہے وہ سیاست ہو یا تعلیم۔ ڈاکٹری پیشہ ہو یا تجارت ایمانداری، ایمانداری اور ایمانداری، سچ سچ اور سچ اپنے سے زیادہ آنے والی نسلوں کے لئے کرنا ہے۔
٭٭٭٭٭
















