اللہ رب العزت نے کائنات کا ایسے انداز میں تخلیق کیا ھے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ھے۔ ایک حصہ زمین، تین حصے پانی پیدا فرمایا۔ قرآن کو یونیورسل مینول بنایا ۔ تاکہ انسان دنیا میں اللہ رب العزت کے اس مینول کے زریعے ہر ہر چیز پر غور کرے۔ قرآن کا انسانیت سے رشتہ ، زمین سے انسان کا رشتہ قرآن میں بارہا بیان ھوا ھے۔یہ انسان کی صلاحیت پر منخصر ھے کہ وہ اللہ کی اس نعمت کو کتنا استعمال کرتا ھے۔ اس حکمت پر کتنا غور کرتا ھے ۔ دنیا و آخرت کی بہتر کرنے کے لئے کہ انسان اس کو پڑھے غور و تدبر کرئے ۔اللہ رب العزت نے انسان کو دیکھنے کی ، سننے کی ، سونگھنے کی ، چکھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ۔ اسے ہر چیز پر دسترس فرمائی۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ میں نے بنی آدم پر کرم کیا۔ میں جسے چاہتا ھوں اسے حکمت عطا کرتا ھوں ۔ اور جسے حکمت دیتا ھوں اسے خیر کثیر عطا کرتا ھوں۔ کائنا ت میں جتنی بھی اشیا اللہ رب العزت نے پیدا کیں کنفیکون کے پس منظر میں نظر آتیں ہیں جبکہ حضرت انسان کو اللہ رب العزت نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا جیسا کہ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتیں ہیں ، اللہ رب العزت کا اپنے ہاتھوں کسی کا تخلیق کرنا اس کی اہمیت اور انفرادیت کو واضح کرتاہے ۔ انسان جسے اللہ رب العزت نے اپنے ہاتھوں تخلیق کیا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ: اللہ نے فرمایا اے ابلیس ! تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ اس کے بعد اس انسان کے اندر تناسل کی طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفے سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں۔ ایک کمال یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کرکے ایک تخلیقی حکم سے اس میں وہ زندگی اور وہ شعور وتعقل پیدا کردیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آگئی۔ دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لئے ایک ایسی مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کارگزاری دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تخلیق انسان کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالی جائے ایک نئی منفرد سوچ معلوم ہوتی ہے۔ جیسا کہ خالق کا کمال حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی بلکہ اسے دو صنفوں کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے لیکن دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت، مختلف ذہنی ونفسی اوصاف اور مختلف جذبات اورمیلانات لیکر پیدا ہوئی ہیں اور پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے جسمانی ونفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں، جیسا کہ قرںن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا ۔کہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر یکایک تم بشر ہوکر پھیلتے جارہے ہو اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرسکو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ تخلیق انسانی کے تمام مراحل پکار پکار کرکہہ رہے ہیں کہ ہمارا دنیا میں ظہور فضیلت کا حامل ہیاور ہمیں تخلیق کرنے والا موجود ہے اور ہماری تخلیق کوئی اتفاقی امر نہیں اور نہ ہی کوئی ارتقائی عمل ہے جیسا کہ زمانہ قدیم کی سائنس بیان کرتی ہے بلکہ ہماری زندگی بامقصد ہے اور فضیلت پر فضیلت یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد تخلیق کو حاصل کریں۔ اس سے ہٹ کر اگر سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے تو ایک غالب نوع کی حیثیت سے بھی انسان کی کوئی مثال نہیں ہے کیونکہ دیگر غالب انواع سینکڑوں اور ہزاروں انواع میں منقسم ہیں۔پھر متعدد اجناس اور بڑے بڑے گروہوں میں جمع ہوگئی ہیں البتہ انسان نے اپنی سیادت کو بغیر تقسیم کے برقرار رکھا ہے اور انسان کا نسلی تنوع ایک ہی نوع میں محدود رہا ہے۔ رب العالمین نے حضرت انسان کو مشت خاکی سے بنایا اور پھر اس میں اپنی روح پھونکی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے جب اسکو (صورت انسانی میں) درست کرلوں اور اس میں اپنی (بے بہا چیز یعنی) روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا ، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفات الہی کا ایک نمونہ ھے۔حیات، علم، قدرت ، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی بھی صفات انسان میں پائی جاتیں ہیں جن کے مجموعہ کے نام ہی روح ہے جس وجہ سے انسان کو جو دوسری تمام جانداروں سے زیادہ عقل، تمیز، قوت وارادہ واختیار ، مختلف اشیا کے خواص معلوم کرنے کا علم نیز غوروفکر کے ذریعے استنباط یا نتائج حاصل کرنے کا علم دیاگیاہے۔ یہ سب کچھ اسی نفخہ کا نتیجہ ہے اور اسی بنا پر انسان زمین میں اللہکی افضل ترین مخلوق ہے ۔ لیکن یہاں ایک بات کا تذکرہ کرتے چلیں کہ نفخت فِیہِ مِن روحِی سے کچھ لوگوں نے بڑا گمراہ کن نظریہ اور مفہوم اخذ کیا ہے کہ اللہ تعالی انسان کی ذات میں حلول کرگیاہے۔اور بعض لوگوں نے کہا کہ جتنا حصہ اللہ نے اپنی روح کا انسان میں پھونکا اتنا اس میں کم ہوگیا(اعاذنا اللہ من ذلک) حالانکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے سورج اپنی شعاعیں زمین پر ڈالتاہے تو وہ روشنی سے جگمگا اٹھتی ہے۔ اس سے نہ سورج کی روشنی میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کہا جاسکتاہے کہ سورج زمین میں حلول کرگیاہے۔ اور دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کسی ارتقا کا نتیجہ نہیں ہے کیونکہ انسان کو اللہ تعالی نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے کیونکہ اپنی روح کا کسی بندرمیں پھونکا جانا انتہائی واہیات اور غیر معقول نظریہ ہے جس کی کوئی بھی صاحب عقل سلیم!
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دئیے۔ اس آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو ایک جان یعنی حضرت آدم علیہِ الصلو والسلام سے پیدا کیا اور ان کے وجود سے ان کا جوڑا یعنی حضرت حوا رضِی اللہ عنہا کو پیدا کیا پھر انہی دونوں حضرات سے زمین میں نسل درنسل کثرت سے مرد و عورت کا سلسلہ جاری کیا۔ قرآنِ مجید میں انسان کی ابتدا ، تخلیق کے مراحل اور انسانی نفسیات پر بہت شان دار کلام موجود ہے اور کیوں نہ ہو کہ انسان کو خدا نے بنایا اور بنانے والے سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالی نے خود قرآن میں بیان فرمایا کہ ۔کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟ حالانکہ وہی ہر باریکی جاننے والا ، قرآنِ پاک میں انسان کا خدا کی بارگاہ میں مقام ، اس کی خوبیاں ، خامیاں ، مثبت ومنفی پہلو ، طاقت و کمزوری نیز طاقت کے درست استعمال اور کمزوریوں سے نجات کے طریقے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن میں تفکر و تدبر کرنے والیکے لئے یہ سب تفصیل بہت دلچسپ بھی ہے اور مفید بھی۔ اس مضمون میں کچھ پہلوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ اللہ تعالی نے انسان کو دیگر مخلوقات سے معزز و مکرم بنایا ، چنانچہ قرآنِ پاک میں فرمایا : : اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فوقیت بخشی۔اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو عقل ، علم ، قوتِ گویائی ، پاکیزہ صورت ،معتدِل قد و قامت عطا کئے گئے ، جانوروں سے لے کر جہازوں تک کی سواریاں عطا فرمائیں نیز اللہ تعالی نے اسے دنیا و آخرت سنوارنے کی تدبیریں سکھائیں اور تمام چیزوں پر غلبہ عطا فرمایا ، قوتِ تسخیر بخشی کہ آج انسان زمین اور اس سے نیچے یونہی ہواں بلکہ چاند تک رسائی اور مریخ تک کی معلومات حاصل کر چکا ہے ، بحر و بر میں انسان نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ورنہ اس کے علاوہ لاکھوں چیزیں اولادِ آدم کو عطا فرما کر اللہ تعالی نے اسے عزت و تکریم سے مشرف کیا ہے اور اسے بقیہ مخلوقات سے افضل بنایا ہے حتی کہ انسانوں میں افضل ترین ہستیاں یعنی انبیا علیہِم السلام تمام فرشتوں سے افضل ہیں اور نیک مسلمان عام فرشتوں سے افضل ہے۔ باطنی کمالات و فضائل کے ساتھ اللہ تعالی نے انسان کو ظاہری شکل و صورت میں بھی ممتاز بنایا ، چنانچہ فرمایا : لقد خلقنا الاِنسان فِی احسنِ تقوِیم() ترجمہ : بیشک یقینا ہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا۔ یعنی ہم نے آدمی کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ، اس کے اعضا میں مناسبت رکھی ، اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا ، اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اور اسے علم ، فہم ، عقل ، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے مزین کیا۔ قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصودِ کائنات انسان ہے اور بقیہ کائنات کو خدا نے انسان کے کاموں میں لگا یا ہوا ہے حتی کہ زمین میں جو کچھ پیدا کیا وہ سب انسانوں ہی کی خاطر پیدا کیا گیا ، چنانچہ سور بقرہ میں بتایا : – وہی ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے بنایا ۔یعنی زمین میں جو کچھ دریا ، پہاڑ ، کانیں ، کھیتی ، سمندر وغیرہ ہیں سب کچھ اللہ تعالی نے تمہارے دینی و دنیاوی فائدہ کے لئے بنایا ہے۔ دینی فائدہ تو یہ ہے کہ زمین کے عجائبات دیکھ کر انسان اللہ تعالی کی حکمت و قدرت پہچانے اورعقل استعمال کر کے اسرار ِکائنات تک رسائی حاصل کرے جبکہ دنیاوی فائدہ یہ کہ دنیا کی ہزاروں چیزیں کھائے پئیاور اربوں ، کھربوں چیزیں اپنے فائدے میں استعمال کرے۔ پھر صرف زمین ہی انسان کے فائدے کے لئے نہیں بلکہ قرآن کے بیان کے مطابق نظامِ کائنات کی دیگر عظیم چیزیں جیسے سورج ، چاند ، ہوا ، پانی ، دن رات ، دریا ، نہریں ، سمندر وغیرہا بھی خدا نے انسانوں کے لئے کام میں لگائے ہوئے ہیں۔ زندگی گزارنے کے لئے جن چیزوں کی حاجت تھی یا مفید تھیں ، اللہ تعالی نے وہ سب انسان کو مہیا فرمائیں: اللہ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی اتارا تو اس کے ذریعے تمہارے کھانے کیلئے کچھ پھل نکالے اور کشتیوں کو تمہارے قابو میں دیدیا تاکہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور دریا تمہارے قابو میں دیدئیے اور تمہارے لیے سورج اور چاندکو کام پر لگا دیا جو برابر چل رہے ہیں اور تمہارے لیے رات دن کو مسخر کیا۔ الغرض انسان کو اللہ کریم نے اپنے فضل و کرم اور رحمت سے اتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں کہ اگر گنتی کرنا چاہیں تو شمار نہ کر سکیں چنانچہ فرمایا : اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہیں کر سکو گے۔ قرآن کی آیتیں اور خدا کی عطا کردہ نعمتیں بآوازِ بلند بتا رہی ہیں کہ خدا کی اِس کائنات میں انسان کا مقام و مرتبہ اور حیثیت کتنی عظیم ہے ، لہذا صاحبِ عظمت کو چاہئے کہ عظمتوں والا طریقہ اختیار کرے اور وہ طریقہ ربِ عظیم کے حضور بندگی کا ہے جبکہ ناشکری ، سرکشی ، جہالت ، ظلم ، تکبر ، فخر و غرور ، گھٹیا اخلاق و عادت انسان کے شایانِ شان نہیں بلکہ یہ اسے احسن تقویم (بہتر صورت) سے اسفل سافلین (سب سے نچلی اور کم تر حالت) میں جا گراتا ہے۔ انسانی کمزوریوں اور ان کے علاج کے لئے وقتا فوقتا انبیا کا نزول کیا۔ لیکن انسان تمام نعمتوں کو بھول کر زمین پر فرعون بن جاتا ھے۔ حالانکہ اسی زمین میں اسنے جانا ھے جس مٹی سے اسکی تخلیق ھوئی ھے۔ پھر بھی انسان زمین پر خدا بن بیٹھتا ھے۔ قارئین کرام!۔ زندگی چند روزہ اور سانسوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اچھے اعمال وکردار اور انسانیت ہی ھماری فلاح و منزل ھے ۔ جب ذوالجلال والاکرام کا مقرر کردہ وقت آن پہنچتا ھے تو تاخیر نہیں کی جاتی۔ اسلئے ہر لمحہ کو غنیمت جانتے ھوئے اسکا ڈر خوف اور عجزو انکساری کو اپنانا انسانیت کا خاصہ ہونا چاہئے۔
٭٭٭










