سرد جنگ عروج پر
عالمی طاقتوں کی چال کیا؟
برصغیر میں بھارت عالمی منظر نامے پر نمایاں مقام حاصل کر رہا ہے ، اپیل، گوگل ، ایڈوبی سمیت دنیا کی بڑی کمپنیوں کے بھارت میں دفاتر ہیں ، سرمایہ کاری ہے جبکہ بھارت کی بڑی کمپنیاں انٹرنیشنل انٹرسٹ میں کام کررہی ہیں ، امریکی حکومت برصغیر میں بھارت کی اجارہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ سرد جنگ کے دوران بھارت کیخلاف محاذ تیار کیے جارہے ہیں ، امریکہ بھارت کے خلاف جارحیت نہیں کرسکتا، اقتصادی پابندیاں عائد نہیں کر سکتا، دبائو میں نہیں لا سکتا ہے ، اس لیے بھارت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے امریکہ کو نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی جس پر کام جاری ہے ، امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت سے طاقت کو کسی دوسرے ملک منتقل کیا جائے اور اس کی خطے میں اجارہ داری کو کم کیا جا سکے ۔دنیا بھر میں بھارتی آئی ٹی ایکسپرٹ، انجینئرز ، ماہرین،اپنا نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں ، مستقبل میں سب سے بڑی جنگ اے آئی پلیٹ فارم پر لڑی جائے گی جس میں بھارت بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے ،امریکہ بیک ڈور پر اس تمام صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے ، اور اس پر قابو پانے کی حکمت عملی بھی تیار کر رہا ہے، اب یہ وقت بتائے گا کہ امریکہ مستقبل میں بھارت کے خلاف کونسی نئی چال کھیلنے والا ہے ۔ بھارت کی روس سے قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ، پاکستان کے خلاف جنگی محازوں کی بات ہو یا پھر مسلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا زکر ہو روس نے یواین میں ویٹو کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا ہے ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سوویت یونین واحد ملک تھا جس نے 1957، 1962 اور 1971 میں کشمیر میں اقوام متحدہ کی مداخلت کی تجویز کو روکا تھا۔روس اب تک چھ بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کے خلاف تجاویز کو ویٹو کر چکا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ویٹو کشمیر کے لیے تھے۔ سوویت یونین نے گوا میں پرتگالی راج کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کی فوجی مداخلت کو بھی ویٹو کر دیا تھا۔ انڈیا اور امریکہ تمام مسائل پر ایک ساتھ نہیں تھے۔ انڈیا ایسی دنیا نہیں چاہتا جس میں امریکہ واحد سپر پاور ہو۔ انڈیا ایک کثیر قطبی دنیا چاہتا ہے جس میں انڈیا کی بھی اپنی حیثیت ہو۔ اس مقصد کے تحت انڈیا مستقبل قریب میں نہ صرف چین کے چیلنج کو روکنا چاہتا ہے بلکہ جو بھی واحد سپر پاور بننا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں امریکہ بھی شامل ہے۔انڈیا کا ماننا ہے کہ ایک کثیر قطبی دنیا عالمی امن اور اس کی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔ انڈیا اسے سٹریٹجک خود مختاری کہتا ہے۔ جیسے انڈیا امریکہ کے قریب رہتے ہوئے بھی مغربی ایران اور روس کے ساتھ رہتا ہے۔ انڈیا کو لگتا ہے کہ یہ پالیسی کثیر قطبی بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ لیکن حقیقت میں یہ زیادہ کارگر نہیں ہے۔ اگرچہ انڈیا نے گذشتہ دو دہائیوں میں ایک اقتصادی طاقت کے طور پر ترقی کی ہے لیکن اتنی تیزی سے ترقی نہیں کر رہا کہ طویل مدت وہ امریکہ اور چین سے برابری کر سکے۔اس صدی کے وسط تک انڈیا جی ڈی پی کے لحاظ سے ایک بڑی طاقت بن سکتا ہے لیکن سپر پاور نہیں۔ فوجی طاقت کے لحاظ سے انڈیا جنوبی ایشیا میں روایتی طاقت کے طور پر اہم ہے لیکن اسے اپنے مقامی حریف پر زیادہ غلبہ حاصل نہیں ہے۔ مئی میں فوجی جھڑپ میں پاکستان نے چینی دفاعی نظام کے ساتھ انڈین لڑاکا طیارہ مار گرایا تھا۔ انڈیا سے جنگ کی صورت میں پاکستان کو چین کی حمایت حاصل ہوگی اور انڈیا دونوں محاذوں پر خوفزدہ رہے گا۔بھارت کے مقابلے میں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ کمزور اور سطحی رہے ہیں ،پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم محض7.3بلین ڈالر ہے جبکہ بھارت اور امریکہ کے مابین تجارت کو500بلین ڈالر تک لیجانے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ ہرگز غیرحقیقی ہدف نہیں۔ گزشتہ برس یعنی 2024ء میں بھارت اور امریکہ کے درمیان 129.2بلین ڈالرکی تجارت ہوئی اور ایک سال کے دوران امریکہ کو 45بلین ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ امریکہ محض 41.8بلین ڈالرکی اشیاء بھارت کو فروخت کر پایا اور اسکے مقابلے میں بھارتی نے 87.4بلین ڈالر کی مصنوعات امریکہ کو برآمد کیں۔ اس تناظر میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ تو بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے لیکن اگر امریکہ کی بات کریں تو بھارت دوطرفہ تجارت کے اعتبار سے دسویں نمبر پر آتا ہے کیونکہ میکسیکو، کینیڈا اور چین بالترتیب پہلے، دوسرے اورتیسرے نمبر پر ہیں۔
٭٭٭
















