خدا کے حکم کے بارے میں بنی اسرائیل نے پہلے ثبت کے قانون میں شرعی حیلہ ایجاد کیا پھر گائے کو ذبح کرنے کے حکم سے بچ نکلنے کے لئے ٹال مٹول شرع کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ذہنیت شریعت الٰہی کے قبول کرنے کے معاملے میں کسی حیلہ جویانہ اور فرار پسند رہی ہے۔ جو لوگ خدا کے حکم کے بارے میں بحثیں اور تاویلیں کریں ان کے اندر دھیرے دھیرے بحیسی کا مرض پیدا ہوجاتا ہے اور ان کے دل سخت ہوتے چلے جاتے ہیں فرمایا، ”پس وہ پتھر کی مانند ہوگئے یا پتھر سے بھی زیادہ سخت(البقرہ74) یہ اسی طرح کا اسلوب کلام ہے جیاس کہ دوسری جگہ فرمایا ”یہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ (الاعراف179) یہ محض مبالغہ کا اسلوب نہیں ہے بلکہ تعبیر حقیقت ہے۔ انسان اگر اپنے آپ کو بگاڑتا ہے تو اس کا بگاڑ آہستہ آہستہ قانون الٰہی کے بموجب ان تمام صلاحیتوں سے اس کو محروم کردیتا ہے جو فطرت کی طرف سے اس کو ودیعت ہوئی ہوتی ہیں۔ اللہ کا نام سب سے بڑی حستی کا نام ہے آدمی کے اندر ایمان زندہ ہو تو اللہ کا نام اس کو ہلا دیتا ہے۔ بولنے سے زیادہ اسے چپ لگ جاتی ہے، مگر جب دلوں میں جمود اور جیسی آتی ہے تو خدا کی باتوں میں بھی اسی قسم کی بحثیں اور تاویلیں شروع کردی جاتی ہیں جو عام انسانی کلام میں کی جاتی ہیں، اس قسم کا عمل ان کی بحیسی میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوجاتے ہیں۔ اب اللہ کا تصور ان کے دلوں کو نہیں پگھلاتا، وہ ان کی روح کے اندر ارتعاش پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ قساوت قلبی کی یہ کیفیت اس امت کے افراد کی بیان کی جارہی ہے۔ جسے کبھی اہل عالم پر فضلیت عطا کی گئی تھی۔ ان آیات میں ایسے عبدی حقائق بیان ہوئے ہیں جن کا تعلق کسی خاص وقت یا کسی خاص قوم یا گروہ سے نہیں ہے، یہ ایسے موصول ہیں جنہیں ہم سنت اللہ کہہ سکتے ہیں، ان میں درحقیقت موجودہ اُمت مسلمہ کے لئے رہنمائی پوشیدہ ہے مثلاً آیت61کے یہ الفاظ کہ اور ان پر ذلت وخواری اور محتاجی تھوپ دی گئی یا ”پھر تہمارے دل سخت ہوگئے، اُمت مسلمہ کے لئے یہ ایک لمحہ فکر ہے کہ کیا ہم تو اس مقام پر نہیں پہنچ گئے؟
٭٭٭















