تاریخ میں واقعہ کربلا کی اہمیت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے۔ ہر سال جب عاشورہ کے دن نواسہ رسول ۖ کی لازوال قربانی کا ذکر کیا جاتا ہے تو اکثر لوگ اسے سوگ منانے کا عمل سمجھتے ہیں بلکہ کچھ علما تو یہ فتویٰ بھی جاری کر دیتے ہیں کہ اسلام میں سوگ تو صرف تین دن کا ہے۔ دراصل ذکرِ کربلا، یزیدیت کے خلاف احتجاج کا وہ مسلسل عمل ہے جو تا قیامت جاری رہے گا۔ دنیا بھر میں اس احتجاجی عمل کی کئی اشکال پائی جاتی ہیں لیکن ماتم کا عنصر تقریبا ہر جگہ موجود رہتا ہے۔ جنابِ افتخار عارف نے کیا خوب کہا ہے کہ،
فراتِ وقتِ رواں ! دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسین کا ہے
زمیں کھا گئی کیا کیا بلند و بالا درخت
ہرا بھرا ہے جو اب بھی شجر حسین کا ہے
امامِ عالی مقام کے سامنے، آج سے چودہ پندرہ سو سال پہلے جو سوال درپیش تھا وہ یزیدی حکومت کے ظلم و جبر کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیعت کرلینے کا تھا۔ انہوں نے جہادِ فی سبیل اللہ کا راستہ اپنایا اور اپنا تن من دھن اللہ کے راستے میں قربان کرکے آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے اس قسم کے حالات سے نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کرنا آسان کر دیا۔ مدینہ منورہ سے کربلا معلی کے طویل سفر کے دوران، خانوادہ رسول ۖ کو مشکلات تو بہت پیش آئیں لیکن بہت سی وفادار طاقتوں کے بھیانک چہروں پر پڑے ہوئے بڑے خوبصورت نقاب اتر گئے۔کوفہ کے جن لوگوں نے خطوط لکھ کر امامِ ذی وقار کو اپنی وفاداریوں کی یقین دہانیاں کروائی تھیں، وہ وقت کی یزیدی مقتدرہ کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ ان کے دل تو حسینیت کے ساتھ تھے لیکن تلواریں یزیدیت کے سامنے سرنگوں ہو گئی تھیں۔ اپنے اس روئیے کے جواز تو انہوں نے بہت ڈھونڈے لیکن جناب افتخار عارف کے بقول
سوالِ بیعتِ شمشیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسین کا ہے
قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی کوفیوں اور شامیوں کے اس طرزِ عمل پر پھٹکار پڑتی رہتی ہے جس کی وجہ سے سانحہ کربلا واقع ہوا۔ علامہ اقبال نے بھی اس کی نشاندہی خوبصورت انداز سے کی ہے۔
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
موجودہ دور کے سرمایہ داری نظام نے ایک ظالمانہ ورلڈ آرڈر کے ذریعے دولت کی نامنصفانہ تقسیم کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے کہ سسکتی اور بلکتی انسانیت کی آہیں، دنیا کے کونے کونے سے سنائی دیتی ہیں۔ سائنسی ترقیوں کے باوجود، بندہ مزدور کے اوقات تلخ سے تلخ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یزیدیت کے ہمنوا، عیش و عشرت کی زندگی گزارنے میں مصروف ہیں جبکہ غریب و مجبور کیلئے آواز اٹھانے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی لئے کہا تھا کہ!
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری
تاریخِ اسلامی میں امام حسین کی لازوال قربانی کی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور انکے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مثال بھی موجود ہے۔ انکی اس قربانی کی یاد میں مسلمان ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی بھی کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک مشہور شعر میں ان دونوں واقعات کا اس طرح احاطہ کیا ہے۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
بلکہ مزید فرمایا ہے کہ
صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ و جود میں بدروحنین بھی ہے عشق
میدانِ کربلا میں خانوادہ رسول ۖ نے جو تاریخ رقم کی اس کے اثرات رہتی دنیا تک باقی رہیں گے۔ حسینیت کے پیغام کو اجاگر کرنے اور گھر گھر پہنچانے کیلئے حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا کلیدی کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے ظالم و جابر حکمرانوں کے درباروں میں اپنے ولولہ انگیز خطبات کے ذریعے، امامِ عالی مقام کے مقصدِ شہادت کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ دربارِ یزید میں ان کے دیئے ہوئے خطبے کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، مشہور شاعر محسن نقوی نے کیا خوب کہا ہے کہ،
اسلام کا سرمایہِ تسکین ہے زینب
ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب
یہ گلشنِ عصمت کی وہ معصوم کلی ہے
تطہیر میں زہرا ہے تیور میں علی ہے
ویسے تو یزیدیت نے پوری دنیا میں ظلم و جبر کی بے شمار مثالیں قائم کردی ہیں لیکن غزہ کی صورتحال ہر جگہ سے زیادہ ابتر ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے فلسطین کے قیام کے دوران، مسلمانوں کی حالتِ زار پر بہت کچھ کہا ہے لیکن ان کا یہ ایک شعر ہی سمجھنے اور سمجھانے کیلئے کافی ہے۔
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
٭٭٭












