تاریخِ جنت البقیع

0
112
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

حضرت نوح کے پڑپوتے عملاق کی اولادیں سب سے پہلے سرزمین مدینہ پر پہنچیں اور یہاں پرزراعت کیلئے زمینیں ہموار کیں ، درخت اُگائے اور رہنے کیلئے گھر اورمستحکم قلعے تعمیر کئے، گزرتے وقتوں کے ساتھ فرد سے خاندان بنے،خاندان سے قبیلے تشکیل پائے۔مدینہ منورہ کبھی قوموں کی گذرگاہ بناتو کبھی شہ زوروں کی آماجگاہ رہاتو کبھی آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کی قیام گاہ دین کبھی اصلی شکل پررہاتو کبھی بگڑگیا ۔پیروان موسی وعیسی بھی یہاں آئے،کچھ یہاں رہ گئے تو کچھ کنعان یا مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کرگئے۔ولادت حضرت پیغمبر سے ہزار سال قبل سے مدینہ میں یہ خبرسینہ بہ سینہ چلی آرہی تھی کہ یہ شہر نبی آخرالزماں کا مسکن قرار پائیگا۔ تبع حمیری دنیا کے بادشاہوں میں وہ بادشاہ ہے جس نے ساری دنیا پر حکومت کی اسکی سپا ہ میں چار ہزار علما وحکما اسکے مشاور تھے۔ اہم خیر ام قوم تبع والذِین مِن قبلِہِم اہلناہم ۖ ِنہم انوا مجرِمِین(سورہ دخان)اور واصحاب الایِ وقوم تبع ل ذب الرسل فحق وعِید(سورہ ق) تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ مدینہ کے کسی رہنے والے نے تبع کے اہل خانہ کے ساتھ جسارت کی تھی تبع نے مجرم کی سرکوبی کیلئے سارے مدینہ کو تاراج کرنے کی ٹھان لی تھی، جس وقت لشکر نے خارج مدینہ پڑاو ڈالا اور مدینہ والوں کو اسکی خبرہوئی تو شہر کے اس وقت کے دانشوران و علما نے بادشاہ تبع سے ملاقات کی اورشہر مدینہ کے فضائل وہ مناقب اورحضرت ختمی مرتبت کی آمد، انکی عظمت ومرتبت سے اسے باخبر کیا،بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا ہوا،اس نیاپنے کاتب سیمرسل اعظم کے نام ایک خط لکھوایا جس میں اپنے ایمان کا تذکرہ کیا اور حضر ت کی خاتمیت کا اقرار کیا، روز قیامت شفاعت کی تمناکی پشت درپشت وہ خط منتقل ہوتارہا جب مرسل اعظم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو ابولیلی نے نوے واسطوں کے بعد وہ خط سرکار کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت خط کو دیکھنے کے بعد مسکرائے اورتین بار فرمایا مرحبا بِاخِ الصالِح، حضرت امیر المونین نے سرکار رسالت مآب کووہ خط پڑھ کرسنایا۔بادشاہ تبع نے اعزازرسالت میں چارسو گھر تعمیر کرائے اوراسکی سپاہ کے چار سو علمانے (یثرب) مدینہ میں اس خیال سے بود وباش اختیار کرلی کہ ہوسکتاہے جلدہی حضرت کا جلوہ ہوجائے خود بادشاہ تبع نے بھی انتظار بعثت کرتے ہوئے ایک سال مدینہ میں گزارا ۔ قبیلہ اوس وخزرج کو پیغمبر اسلام کے استقبال کیلئے بسایا۔اسی شہر مدینہ کا ایک مختصر ساحصہ ہے جسے آج جنت البقیع کہتے ہیں۔حمودی کے بیان کے مطابق لغت میںبقیع اس علاقہ کو کہتے ہیں جس میں مختلف درخت پائے جائیں گویا بقیع زمانہ قدیم میں وہ علاقہ تھا جہاں ایسے درخت پائے جاتے تھے جنکی جڑیں زمین کی گہرائی میں اتری ہوئی تھیں۔خاندان رسول کے پاکیزہ افراد کی ہونے والی تدفین سے بھی یہ سمجھا جا سکتا ہے ان کی جڑیں بھی گہری ہیں اور ان کی رحمت کے درختوں کے جھنڈ بھی گھنے ہیں۔ بقیع کو بقیع الغرقد بھی کہتے تھے ،غرقد کے معنی کانٹے دار درخت کے ہیں(جاری ہے)
،چونکہ بقیع میں عوسج نامی کانٹے دار درخت پایا جاتا تھا لہذا روزمرہ کی بول چال میں بقیع الغرقد مشہور ہوگیا ۔ بقیع ایسے بقہ کو بھی کہتے ہیں جو ہمیشہ گنبد اور بقیع اٹھی ہوئی جگہ کو بھی کہتے ہیں۔
تاجدار مدینہ نے بعثت کے تیرہویں سال یکم ربیع الاول مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی ،12ربیع الاول کو مدینہ پہنچے ،یہاں پہنچ کر حضرت نے خدا سے عرض کی ! بارالہااس شہر کو ہمارے لیے محبوب قرار دے ،اسی طرح جیسا تو نے مکہ کی محبت میرے دل میں ڈال دی تھی ،یہاںکے کھانے اورپانی میں برکت عطا فرما ،تیرے خلیل نے مکہ کے لیے دعا کی تھی ،تو تیرا حبیب مدینہ کے لیے تجھ سے خیرات وبرکات کا خواہا ں ہے ،اس شہر کو بیماری وبلا سے محفوظ فرما ۔اپنے اہل بیت اور اصحاب کے لیے گھروں کے حدود معین کئے ،بقیع کے درخت کاٹے گئے اور یہ رہائشی علاقہ میں تبدیل ہو نے لگا۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ موجودہ حرم آئمہ بقیع علیہم السلام درحقیقت حضرت عقیل کا گھر ہے،چونکہ دوسری صدی ہجری کے وسط یا ابتدا میں حضرت عقیل مدینہ تشریف لاچکے تھے ۔حضرت مرسل اعظم کی تقسیم پر یہ زمین حضرت عقیل کے حصے میں آئی اور بنی ہاشم کے لئیحضرت عقیل کا گھر مرکزی حیثیت رکھتا تھا ،لہذا یہاںحضرت مرسل اعظم اور حضرت علی کی مرضی شامل تھی ۔ لہذا حضرت مرسل اعظم اوراہلبیت اطہار اور بنی ہاشم کی آمد و رفت رہتی۔
جس وقت جناب فاطمہ بن اسد کا انتقال ہوا تو جناب عقیل نے آپ کو اپنے گھر میں دفن کیا چونکہ آپ رسول پاک کی مربی اور حضرت علی کی والدہ تھیں لہذا قطعا اس اقدام میں حضرت مرسل اعظم اور حضرت علی کی مرضی شامل تھی۔ اس تدفین کے بعد سے خانہ عقیل مقبرئہ بنی ہاشم کے نام سے پہچانا جانے لگا ۔ تاریخ مدینہ میں ہے۔ دفن العباس عبدالمطلب عند قبر فاطم بنت اسد بن ہاشم فی اول مقابر بنی ہاشم التی فی دار عقیل ۔ نہیں معلوم یہ تدفین گھر میں کیوں انجام پائی ؟ممکن ہے اسکی وجہ وہی ہو جس کا ذکر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ میں ملتا ہے کہ آپ کو یہ پسند نہیں تھا کہ عورت کے جنازہ کے خدوخال مشایعت کرنے والوں کے سامنے آئیں ۔
جناب فاطمہ بنت اسد کی تدفین کے بعد بقیع میں بنی ہاشم کے گذشتگان کی تدفین انجام پانے لگی۔حضرات آئمہ طاہرین حضرت امام حسن امام زین العابدین حضرت امام جعفر صادق کی تدفین کے بعد سے بقیع کوجنت البقیع کہنے لگے ،چونکہ پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے کہ آئمہ ہدی میں سے جو بھی ہیں آسودہ لحد ہو گاوہ حصہ جنت کے حصوں میں سے ہے ۔سب سے پہلے ماجد الملک ابوالفضل اسعد بن موسی اردستانی نے حرم آئمہ بقیع پر قبہ ،منارہ اور ضریح نصب کرائی ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here