نور ہدایت!!!

0
128

نور ہدایت!!!

محترم قارئین!حضرت خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا ایمان افروز اور عبرت آموز واقعہ درحقیقت قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لئے بہت بڑی ہدایت کا سامان ہے اور عیدالاضحی کی قربانی اس واقعہ کی مقدس یاد گار ہے۔اسی نئے سرکار دو عالمۖ نے اس قربانی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ قربانی تمہارے باپ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت اور ان کے جوش وفا شعاری جذبہ فدا کاری کی ایک زندہ جاوید یادگار ہے۔لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ انتہائی خوشدلی سے اور جذباتی ایمانی وجوش اسلامی سے کرے۔مگر ہاں!یہ ضروری ہے کہ اس قربانی سے سنت ابراہیم علیہ السلام پر عمل اور رضائے الٰہی کے سوا دوسری کوئی نیت نہ ہو۔اگر کیسی ربا کاری وشہرت کے لئے یا محض گوشت کھانے کے لئے قربانی کی تو ہرگز ہرگز اس کی قربانی دربار مصطفیۖ اور دربار خدا جلل جلالہ میں قبول نہیں ہوگی۔
قرآن مجید میں احکم الی کمین نے صاف صاف لفظوں میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ صرف ان ہی بندوں کی قربانیاں بارگاہ کبریا میں قبول ہوتی ہیں جن کے اعمال میں تقویٰ وپرہیز گاری کی روح کام کر رہی ہو۔لہٰذا قربانی کا جانور نہایت ضربہ، تندرست اور خوبصورت ہونا چاہئے۔اس لئے کہ قربان خداوندی ہے۔ترجمہ:”تم ہرگز ہرگز اس وقت تک نیکی نہیں پا سکو گے جب تک کہ خدا کی راہ میں اپنے محبوب ترین مال کو نہ خرچ کرو۔”(پارہ نمبر سورہ آل عمران)حدیث پاک میں حضورۖ کا ارشاد گرامی قدر ہے:ترجمہ”تم لوگ فربہ جانوروں کی قربانیاں کرو کہ یہ قربانی کے جانور پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گے”بدقسمتی سے آج کل ہم مسلمانوں کا تو یہ حال ہے کہ اگر صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں توایسی چیزوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں جو اس قابل ہی نہیں ہوتیں انہیں مکان میں رکھا جاسکے۔مشاہدہ میں ہے کہ ایسے رومال،تہبند، ساڑیاں اور چادریں جو دنیا کے بازاروں میں نہیں بک سکتیں انہیں لوگ اسی لئے رکھ لیتے ہیں کہ رمضان شریف میں مدرسوں یا مسجدوں میں چندہ کے طور پر یا فقیروں کو خیرات دے کر حاتم کی قبر لات مارتے ہیں اور ہر طرف اپنی خیرات کا ڈھول پیٹتے ہیں۔سنا ہے کہ ایک مرتبہ کسی رئیس نے کسی فقیر کو بہت ہی پرانی اور پھٹی ہوئی چادر خیرات میں دی۔فقیر بڑا ہی مسخرہ تھا اس نے چادر کو بوسہ دے کر کہا سبحان اللہ:اس میں تو کلمہ بھی لکھا ہوا ہے اور زور زور سے پڑھنے لگا:لا الہ الااللہ،لا الہ الاللہ کسی نے کہا کہ جناب پورا کلمہ پڑھو۔یعنی لاالہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہۖ بھی پڑھو۔تو فقیر کہنے لگا کہ جناب!یہ چادر محمد رسول اللہ کی بعثت سے بہت پہلے کی ہے اس لئے اس پر صرف لاالہ الا اللہ لکھا ہوا ہے۔اس چادر پر جتنا لکھا ہوا ہے میں اتنا ہی پڑھ رہا ہوں یہ سن کر رئیس شرمندہ ہوا اور نئی چادر فقیر کو دے دی۔مقصد کسی کی خیرات کا مذاق اڑانا نہیں ہے بلکہ نظام کو بہتر سے بہتر بنانا ہے باقی فقیروں کے حالات بھی خدا کی پناہ میں ہر کوئی اپنا اپنا کام سمجھتے اور ذمہ داری سے ادا کرے۔ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو اور ساتھ ساتھ گیارہویں اور بارہویں تاریخیں قربانی کے لئے مخصوص ہیں۔مگر پہلا دن افضل ہے۔جہاں نماز عید ہوتی ہے وہاں نماز عید سے پہلے قربانی نہیں ہوسکتی اس لئے ضروری ہے کہ نماز عید ادا کرنے کے بعد قربانی کی جائے۔ہاں البتہ وہ چھوٹے چھوٹے گائوں جہاں نماز عید نہیں ہوتی وہ لوگ دسویں ذوالحجہ کو صبح صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں مگران کے لئے بھی افضل یہ ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد قربانی کریں۔اپنے ہاتج سے قربانی کو ذبح کرنا افضل ہے اگر خود اچھی طرح ذبح نہ کرسکے تو دوسرے شخص سے اپنی موجودگی میں ذبح کروائے۔اگر موجود نہ ہوسکے تو بھی اجازت دے کر ذبح کروا سکتا ہے۔ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھے۔یہ دعا پڑھ کر جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رخ لٹا کر ذبح کرنے والا اپنا دایاں پائوں جانور کے شانے پر رکھ کر اور اللہ اکبر پڑھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کرے۔جانور پکڑنے والا بھی تکبیر پڑھتا رہے۔اگر قربانی اپنی طرف سے ہو تو۔اور اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کر رہا تھا منی کی جگہ لفظ من فلاں بن فلاں بولے۔قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں ایک حصہ فقراء ومساکین پر صدقہ کر دینا چاہئے اور دوسرا حصہ عزیزوں اور دوستوں کیلئے اور تیسرا حصہ اپنے گھر والوں کے لئے سنت الٰہی ہے۔باقی مجبوری کے تحت جس طرح بھی تقسیم کرلے قربانی کے ثواب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا قربانی کا گوشت تبرک ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو پہنچانا بہت اچھا ہے اللہ تعالیٰ تمام اہل اسلام کی خیر کرے۔عید کی خوشیاں سب کو مبارک ہوں(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here