سمجھ میں نہیں آرہا کہ کہاں سے کالم کا آغاز کیا جائے۔ وطن عزیز پاکستان اس وقت ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں فرد سے مملکت تک نہ چین وسکون نظر آتا ہے، نہ ہی حق وسچ کو تسلیم کرنے پر آمادگی کا عندیہ سامنے آتا ہے۔ عوام بیچارے روزمرہ مشکلات اور اپنے بنیادی ومعاشرتی حقوق سے محرومی کے سبب تو سراپا احتجاج ہیں لیکن ان کی پریشانیوں زندگی گزارنے میں درپیش دشواریوں کا مداوا کرنے کے برعکس صاحبان اختیار و اقتدار کا جھوٹے وعدوں، براہ راست وباالواسطہ مالی معاشرتی اور جمہوری ناانصافیوں اور زیادتیوں کا عملی تسلسل جاری نظر آتا ہے، یہی نہیں عوام کے حقوق کا گلا گھونٹ کر دھونس، دھمکیوں اور منفی ہتھکنڈوں سے اقتدار کے سنگھاسن پر قابض بھی رہے ہیں۔ اس وقت ملک اور عوام کے ساتھ جو ناانصافیوں اور زیادتیاں کی جارہی ہیں ان کی باز گشت صرف وطن عزیز میں ہی نہیں بیرون ملک بھی سنائی دے رہی ہے۔ ان حالات میں ہمیں معروف وسینیئر شاعر محبوب خزاں کا شعر یاد آرہا ہے، ”کچھ لوگ جی رہے ہیں شرافت کو بیچ کر تھوڑی بہت انہی سے شرافت خریدیئے”
اس شعر کی معروض میں اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت ہر شعبہ ریاست حکومت سے انصاف ودیگر معمولات میں موجود ہے۔ گزشتہ ڈھائی برسوں سے عوام کے حقوق پر جو ڈاکے ڈالے جارہے ہیں ان کا احوال سب کے سامنے ہے، تازہ ترین ڈاکہ بجٹ کی صورت میں سامنے آیا ہے جس نے نہ صرف عوام کی چیخیں نکال دی ہیں بلکہ زندگی عزت وسکون سے گزارنے کو بھی سدود کردیا ہے۔ بجٹ کے ساتھ ہی مرے پہ سو دُرّے بجلی کے بل اور لوڈشیڈنگ ثابت ہوئے ہیں۔ وزیر خزانہ بجٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف کی شرائط اور اپنی مجبوری کا اظہار فرماتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ50ہزار آمدنی والے تنخواہ دار پر ٹیکس لگا دیا گیا، لاکھوں، کروڑوں کمانے والے جاگیردار، زمیندار، وڈیرے پر ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھی گئی۔ یہ اقدام طبقاتی تفریق کا آئینہ دار تو ہے، زور آوروں کے دبائو اور شرافت سے عاری پن کی گواہی بھی ہے جس کے عادی وطن عزیز کے وہ تمام طبقات ہیں جو ملک کے سیاہ وسفید پر قابض اور فیصلوں کی طاقت رکھتے ہیں خواہ فیصلے ملک کے مفاد اور عوام کی رضائے خلاف ہی ہوں۔
ملکی مفاد اور عوام کی مرضی کے خلاف فیصلوں اور ہتھکنڈوں کے ظالمانہ سلسلے نیز حق حکمرانی کو ٹھکرانے کے کھیل میں گزشتہ ڈھائی برسوں سے اسٹیبلشمنٹ، آئینی اداروں، اعلیٰ عدلیہ و ایجنسیوں کے کردار خصوصاً8فروری کے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ کی چوری پر امریکی ایوان نمائندگان(ڈیمو کریٹس و ریپبلکنز) کی اکثریتی قرار داد نے پاکستانی مقتدرہ، جعلی حکومت اور دیگر حلقوں کو جمہوری حوالے سے دنیا بھر میں جس طرح برہنہ کردیا ہے بلکہ وہ ریاست وحکومت کو آگ بگولہ کر دیا ہے۔ ایک جانب ایوان میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی مذمتی قرار داد پاس کی گئی ہے تو دوسری جانب پاکستانی سفیر مسعود خان کو اس بناء پر کہ امریکی ایوان نمائندگان میں قرار داد کس طرح پاس ہوگئی۔ مدت تعیناتی(مارچ2025) سے قبل تبدیل کردیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کے اقدامات سچائی کو جھٹلا سکتے ہیں، تازہ ترین تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے بھی 8فروری کے انتخابات کو متنازعہ وجعلی قرار دیا ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ عوام کے حق رائے دہی کو جھٹلانے اور مانگے تانگے کی حکومت بنانے، عوام کے واحد قائد اور مقبول ترین پارٹی کے مینڈیٹ کو رد کرنے کا ردعمل اب عدالتی سطح پر محسوس کیا گیا ہے اور اسکے واضح اثرات سامنے آرہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھر عدالت عظمیٰ میں فل بنچ کی مخصوص نشستوں کی سماعت ہوتی رہی۔ سماعتوں کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی13معزز ججز کے درمیان اختلافی جھیل وسیع ہوتی جارہی ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ معاملہ گھمبیر ہو رہا ہے اور تقسیم ان نمبرز پر جاسکتی ہے جہاں متفقہ فیصلہ آنا مشکل ہو اور تنازعتی صورتحال پیدا ہو۔ ہمارے کالم کے تحریر کئے جانے تک یہ مئوقف سامنے آیا ہے کہ13جنوری کے نشان واپس لئے جانے کے باوجود پی ٹی آئی بطور جماعت نااہل نہیں ہوئی تھی۔ چیف جسٹس کے مطابق فیصلہ آئین کی روح کے مطابق ہونا چاہئے سینئر جج منصور علی شاہ کے مطابق اگر ایک فرد کا بھی تعلق اسمبلی میں نامزدگی کے وقت پی ٹی آئی سے الحاق ثابت ہوجاتا ہے تو جماعت کا مخصوص نشست کا حق قرار پاتا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چھ اراکین اسمبلی نے کاغذات نامزدگی میں اپنا الحاق پی ٹی آئی سے ظاہر کیا تھا جب کہ الیکشن کمیشن نے آزاد قرار دیا جو غلط اقدام تھا۔ معاملہ اس حد تک جاچکا ہے کہ دو سے چار ججز کے ریمارکس، الیکشن کمیشن نے13جنوری کے فیصلے کی غلط تشریح کرکے پی ٹی آئی کو الیکشن سے باہر کردیا جس کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس امر کا بھی امکان ہے کہ الیکشن کمیشن کو نظرثانی کی ہدایت دی جائے لیکن کیا مقتدرہ کی عمران مخالف پالیسی اور موجودہ بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کے انہدام کے خدشے کے باوجود عدالت عظمیٰ پی ٹی آئی کے حق میں کوئی فیصلہ دے سکے گی۔ مقطع میں آپڑی ہے سخن گستیرانہ بات کے بموجب حالات اس موڑ پر آچکے ہیں جہاں محاذ آرائی اور تنازعتی صورتحال کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور اس کا نتیجہ مزید در مزید ابتری وجگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
محبوب خزاں کے شعر میں لفظ شرافت ایک استعارہ ہے۔ انصاف نرم خوئی، رواداری اور تحمل وبرداشت کا ہمارے فیصلہ سازوں، انصاف کے رکھوالوں اور وطن سے محبت کرنے والوں کے لئے پیغام بقاء یہی استعارہ ہے ورنہ بقول حبیب جالب!
کوئی ٹہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتائو
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
٭٭٭٭٭٭