طلسماتی تماشبین

0
130
شبیر گُل

پاکستان میں روز اوّل سے جرنیلی مافیا ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔جس نے تین بار مارشل لاء اور درجن بار جمہوریت کی بساط لپیٹ کی مادروطن کے آئین کو بوٹوں تلے روندا۔یہ جرنیلی مافیا خلف ملک سے وفاداری کا اٹھاتے ہیں ،سجدہ ڈالروں کو کرتے ہیں۔ملکی مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ رات بارہ بجے عدالتیں کھلواتے ہیں۔صحافیوں کے سوال پوچھنے پر دھمکیاں دیتے ہیں۔ بول ٹی وی کے معروف اینکر سمیع ابراہیم کو سائبر کرائم کی طرف سے نوٹس۔ عمران ریاض خان کو ایف بی آر کی طرف سے نوٹس اور فوجی آفیسروں کی طرف سے دھمکی آمیز کالیں۔ کیا سائبر کرائم کے ذمہ داران یہ نوٹس کبھی ان کتوں کو بھی بھجتے ہیں جو پاکستان پر بھونکتے ہیں۔ میڈیا میں بیٹھی کالی بھیڑیں انکی غیر آئینی بدمعاشی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی سمیع ابراہیم اور عمران ریاض خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بے ضرر صحافی (سمیع ابراہیم )کو نوٹس ، دھمکی آمیز کال کھلی بدمعاشی ہے۔ یہ جرنیل کوئی مقدس گائے نہیں ہیں کہ انکی خلاف بات نہ کی جائے۔ سمیع ابراہیم ہمیشہ کڑوڑ کمانڈروں کے حق میں بولتا اور اظہار کرتا ہے۔صحافی عمران ریاض خان کو دھمکی آمیز فون کالز ، ان غنڈوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں؟۔جماعت اسلامی کے مرحوم رہنماء قاضی حسین احمد مرحوم اور سید منور حسن مرحوم جرآت سے انہیں کڑوڑ کمانڈر اور امریکی پٹھو کہا کرتے تھے۔وہ فرماتے تھے کہ ہماری کرسیوں پر غیروں کے ایجنٹ بیٹھے ہیں۔جرنیلی مافیا کے اثاثے انکا آئینہ ہیں۔ میرے گھر قاضی حسین احمد مغفور موجود تھے ۔جنرل جہانگیر کرامت نے قاضی صاحب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ قاضی صاحب نے جنرل جہانگیر کرامت سے کہا کہ جنرل صاحب آپ لوگوں کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ آپ زندگی کے بقیہ ایام اور تجربہ انکے سْپرد کردیتے ہیں۔ جو بات گزشتہ ستر سال سے جماعت اسلامی کہہ رہی ہے۔ وہ بات آج عمران کہہ رہا ہے۔ جماعت اسلامی باکردار، صالح، ایماندار اور کرپشن سے پاک افراد پر مشتمل ہے اسکی بات لوگوں تک کیوں نہیں پہنچی؟اسکی بنیادی وجہ سوشل میڈیا ،امریکی اور مغربی میڈیا کے زریعے پی ٹی آئی کوشہرت کی بلندیوں تک پہنچایا گیا۔ پی ٹی آئی کا ایک طبقہ گزشتہ ادوار میں اقتدار کے مزے لوٹ چکا ہے۔پی ٹی آئی لبرل/ماڈرن طبقہ کی موجودگی میں ریاست مدینہ دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔حق اور سچ ان تینوں بڑی جماعتوں کے پاس نہیں ہے۔
پاکستان کے سارے (این آر او)۔کے پیچھے
سارے (غداروں کو تخفظ) کی فراہمی کے پیچھے
سارے بدمعاش اور کرپٹ سیاستدانوں کی (کرپشن کے پیچھے)
عدالتوں کے (بکاؤ ججوں )کی بے ضمیری کے پیچھے
سلیکٹڈ اور (بیرونی گماشتوں )کی یلغار کے پیچھے
بیرونی آقاؤں کے غلاموں کے تسلط کے پیچھے
یہی جرنیلی مافیاہے۔م ایک نظریاتی ، محب وطن اور عاشق رسول ہیں۔میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہے بچپن سے فوجیوں کو سلیوٹ پیش کیا ہے۔عزت دی ہے۔ سکول، کالج، یونیورسٹی میں ان کا دفاع کیا ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں اقتدار کو غیر آئینی علی بابااور چالیس چوروں کے سْپرد کرنے پر سوال تو اٹھیں گے کہ کب تک ان بیغرت جرنیلوں ، بے شرم کڑوڑ کمانڈروں، ماں فروش فوجی ٹولے کی بدمعاشیوں پر خاموش رہنگے گے۔
قوم کو ایکبار انکی بدمعاشی کو چیلنج کرنا ہوگا۔ جنہوں نے ہمارے ڈیموکریٹ سسٹم پر ہمیشہ شب خون مارا ہے۔
اس غنڈہ گردی کو بندہونا چاہئے۔برساتی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اگر مہنگائی ختم نہ ہوئی تو وہ کپڑے اْتار دینگے۔
وزیراعظم کی (شْب چنتک)صحافی لیڈیز اور چمگادڑ نما کرائے کے ٹٹو صحافی، شہباز شریف کے کپڑے اْترتا دیکھ کر کیا محسوس کرینگے۔
ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دفن ہوا۔جس کی آڑ میں ن لیگ فوج پر تنقید کرتی تھی۔مریم نواز ،اچکزئی ، داؤڑ ،فضل الرحمن کے فوج پر لعنت بھجنے اور گالیاں دینے پر فوجی ٹولہ کیوں حرکت میں نہیں آتا۔ صحافیوں کے سوال پوچھنے پر نوٹس ؟۔ دراصل اسٹبلشمنٹ ہی سارے گند کے پیچھے ہے۔گزشتہ دنوں سیاسی لیڈروں پر حملے اس بات کی غمازی ہے کہ حالات جان بوجھ کرسول وار کیطرف لیجائے جارہے ہیں۔اگر حالات خراب ہوئے تو چیف جسٹس اور جرنیلی مافیا اس کے اصل مجرم ہونگے۔
قارئین ! میرا دعوی ہے کہ اگر موجودہ کڑوڑ کمانڈرز کو جیل میں ڈالا جائے تو سیاسی ، عدالتی اور فوجی گندگی صاف ہوسکتی ہے اور نئے آفیسرز کی کھیپ پاکستان کے نظریات کی مخافظ ہوگی۔
چونکہ گزشتہ چند سالوں سے جرنیلی مافیا ٹرینگ کیلئے اپنا ابا جان کے دیس نہیں آیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ہمیں سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔جب جرنیلی مافیا سیاست میں ملوث پوگی ،نام تو آئے گا۔ پولیٹکل انجنئیرنگ یا عدالتی انجنئرنگ کا لیبل اْسی پر لگے گا جو اس میں ملوث ہے۔ موجودہ سیاسی اشرافیہ کے نزدیک کرپشن، چوری، اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں۔ انکے نزدیک اہمیت اقتدار کا حصول ہے۔ میرا سوال ہے کہ آیا پی پی کے دور میں عمران کو پلے بوائے کہنے والا فواد چوہدری سچا تھا کہ اب والا فواد چوہدری۔
پہلے والا مختیارا سچا تھا کہ اب والا۔
میں گزشتہ کالمز سیاسی مومنیں کے بارے لکھ رہا ھوں۔چور ڈاکو اور منافق میرا موضوع نہیں ہیں۔فرح خان کی بات آئے تو یوتھیا دے کہ کیا مریم چور نہیں۔بھائی ایسے نہیں چلے گا
جہانگیر ترین ،علیم خان سبھی اب سالا منافق ھوئے۔آپ لوگوں کے کپڑے اتاریں جب آپکی باری آئے تو بھاگیں نہیں۔ اْسے کردار کشی قرار دیکر کر مومن بننے کی کوشش نہ کریں۔ جب آپ ریاست مدینہ کا دعوی کرتے ہیں۔ تو آپکا کردار، آپکے اعمال، ان چوروں ، ڈاکوؤں اور منافقوں سے بہتر ہونے چاہئے۔ ویسے یہ آپکو کا نے حق دیا ہے کہ آپ طے کریں کون مومن ہے اور کون منافق۔
اگر یوتھیوں کے نزدیک منافق کی نشانی ن لیگ ، جیالا پارٹی سے ہمدردی ہے۔ تو انکی صفوں میں موجود ن لیگ اور جیالا پارٹی سے آئے ہوئے مومنین یوتھیے ، ابھی بھی منافق ہیں یا انہیں مومن کی رسید مل چکی ہے۔
یوتھیوں کی نظر میں انکے علاوہ سب منافق ، سب کرپٹ اور سب پلید ہیں۔ یہ منفی سوچ انکے اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ھے۔ َاسلئے پٹواری ، جیالے اور یوتھیئے ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔
موجودہ ٹولہ بھی مہنگائی کا ذمہ دار سابقہ حکمرانوں کو قرار دیتا ہے۔
شریف خاندان، دودھ، پولٹری،اور شوگر انڈسٹری کی مالک ھے۔ ان چیزوں پر مہنگائی کم کیوں نہئں کرتے۔؟
سابق امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم ایکبار سیالکوٹ تشریف لائے اس وقت بھی سیاسی افراتفری تھی۔میاں طفیل محمد مرحوم کا کہنا تھا کہ جب کنجریاں آپس میں لڑتی ہیں تو ایکدوسرے کو کنجری
کا طعنہ دیتی ہیں۔ چونکہ انہیں اپنی اصلیت کا پتہ ہوتا ہے۔ ایکدوسرے کو چور ڈاکو کہنے والے سبھی چور اکٹھے ہیں۔انکی اپنی تجوریاں میں اضافہ ہوا عوام کو کوئی ریلیف نہ ملا۔جب حکمران چور ھونگے تو ہر چیز میں ملاوٹ ھوگی۔ پاکستان میں رمضان آنے سے پہلے ہی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔
رمضان میں چار سو روپے کلو سیب،دو سو روپ درجن کیلا فروحت ہوا۔
یورپ اور امریکہ میں رمضان آنے سے پہلے غیر مسلم دوکاندار امریکہ میں چیزیں سستی کر دیتے ہیں۔ کرسمس کے دنوں میں چیزوں پر سیل لگ جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ھم عوام کا بھرکس نکال دیتے ہیں۔ہم پھر بھی شیر اک واری فیر۔ عمران خان دو ہزار اٹھایس تک حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔
قوم اپنی مجرم خود ھے۔قوم چاہتی ھے چوروں ، ڈاکوؤں اور وطن فروشوں کو۔ یا ضمیر فروش سیاسی لوٹوں کو۔ یا ملک دشمن نظریہ رکھنے والی جماعتوں کو۔ یا پھر پاکستان کے تعفن شدہ ان لوگوں کو جنہوں نے پیپلز پارٹی ن لیگ۔ مشرف اور ضیاء کی حکومتوں میں رہے۔
جاہل قوم کو سوچنا چاہئے کہ اگر دیانت دار لوگوں کے پاس اقتدار ہوتا تو تبدیلی کے آثار نظر آتے۔ نہ کرپشن میں کسی کو سزائیں ہوئیں اور نہ بیرون ملکی سے لوٹا ھوا پیسہ واپس لایاجا سکا۔اور نہ ہی وطن دشمن غداروں کو ملک میں واپس کا کر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔
جماعت وہ نظریاتی جماعت ہے جس نے بنگلہ دیش میں پاک آرمی کے شانْہ بشانہ ملکی دفاع کے کئے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا جس کی پاداش میں پچاس سال بعد بھی قیمت ادا کر رہی ہے۔ پاک فوج اقتدار میں نظریہ اسلامی کے مخالفین کو لاتی ہے۔ جو انکی ماں بہن ایک کرتے ہیں انہیں لاتی ہے۔ یا بیرونی آقاؤں کے غلاموں کو لاتی ہے۔ ْجتنا نقصان ملک کو سیاسی بدمعاشوں سے ھوا اْس سے کہیں زیادہ فوج بدمعاشیہ
مشرف بھی کہتا تھا سب سے پہلے پاکستان۔ پھر اسی مشرف نے امریکیو ںکے آگے پاکستان کی عزت، غیرت اور وقار کو گروی رکھ دیا۔سینکڑوں لوگوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔
قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کیا۔ عمران الیکشن سے پہلے عافیہ صدیقی کو لانے کی بات کرتا۔کوئی عمران سے پوچھ کر بتائے گا کہ پونے چار سال اْسے قوم کی بیٹی یاد کیوں نہیں آئی۔ ہماری سرحدوں کے مخافظ ، قوم کے رکھوالے، بے شرم جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کی غیرت کیوں نہ جاگی، کہ بیٹی غیروں کی قید میں ہے۔ کسی کو امریکی انتظامیہ سے بات کی جرآت نہ عدلیہ کو آرٹیکل 62 اور 63 پر آئین کے مطابق فیصلہ دینا چاہئے۔ تاکہ کوئی فلور کراسنگ نہ کرسکے اپنا ووٹ نہ بیچ سکے۔ مملکت خداداد میں اس فساد کی علامت بکاؤ جج اور بکاؤ جرنیل ہیں۔یہ دو ادارے ہی اصل بیماری کی جڑ ہیں۔
ان کا نیوٹرل ھونا ہی ملکی سلامتی کی علامت ہوگا۔ پی ٹی آئی کا گراف دن بدن اوپر جا رہا ہے۔جو آئیندہ الیکشن میں بڑی کامیابی کی برف اشارہ ہے۔دوسری طرف گورنر پنجاب سرفراز چیمہ اور وزیراعلی خمزہ شہباز کے درمیان جنگ شدت اختیار کر چکی ہے۔ گورنر چیمہ کا گورنر ہاؤس میں داخلہ بند اور پولیس فورس نے گورنر ہاؤس پر قبضہ جمالیا ہے۔ حالات دن بدن کشیدگی کیطرف بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ڈالر کو پر لگ چکے ہیں ، سٹاک مارکیٹ کریش ھوچکی ہے۔ آئی ایم ایف نیآئیندہ امداد کے لئے تیل ، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے سے مشروط کردیا ہے۔سعودیہ عرب نے مدد سے ہاتھ کھنچ لیا ہے۔چین بھی اس صورتحال میں خاموش ہے۔ ملکی معیشت تباہی کی طرف بڑھ چکی ہے۔شہباز شریف اقتدار کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔جو ن لیگ کی سیاسی موت ثابت ہوگا۔ میاں نواز شریف نے سنئیر رہنماؤں کو لنڈن طلب کر لیا ہے۔ مملکت خداداد پر حکمرانی کے لئے عقل،شعور اور تعلیم کا ھونا ضروری نہیں۔ وزیراعظم بننے کے لئے بے ضمیر ھونا ضروری ھے۔ طاقتور حلقوں سے روابط ہونا ضروری ھے۔جرنیلوں اور ججز کو خریدنے کے لئے مال ہونا ضروری ہے۔ قوم ان مجرمین کو یاد رکھے جن پر کرپشن، قتل، ڈرگ اور ملک کی سالمیت کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں۔ اور ایسے لوگ پاور میں ہیں۔
اقتدار کی یہ جنگ میوزیکل چئیر ثابت ھو رہی ہے۔ زرداری نے ن لیگ کو دھکیل کرپرانے حساب چْکتا کر لئے ہیں۔اللہ سے دعاء ہے اقتدار کی رسہ کشی میں ملکی مفاد کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اور قوم ان راہزنوں کی مکاریوں کو نہ بھولے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here