میاں نوازشریف کی واپسی! !!

0
63
پیر مکرم الحق

21اکتوبر میاں صاحب نے آنا تھا کسے یقین نہیں تھا کہ وہ آئینگے انکی جماعت کے لوگ بھی بے یقینی کی کیفیت میں رہ رہے تھے۔ لیکن اس بار نوازشریف تشریف لے آئے۔ مینار پاکستان میں ان کا شاندار جلسہ بھی ایک روز بعد ہو ہی گیا۔ میدان بھر گیا اور مینار کے دروازے کے باہر بھی لوگ تھے۔ بہرحال ان حالات میں جب میاں صاحب چار سال ملک سے باہر تھے اس سے پہلے وہ دو سال قیدوبند میں تھے عمران خان ببانگ دہل کہتے تھے کہ نہیں چھوڑونگا۔ ایک سیاسی رہنما کے لئے چھ سالہ سیاسی منظر سے غائب رہنا لوگوں کے اذہان سے مٹا دینے کے لئے کافی ہیں۔ لیکن لاکھ اختلافات کے باوجود بھی یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ خصوصاً پنجاب اور مرکزی پنجاب میں میاں نوازشریف کو حمایت حاصل ہے۔ خاص طور پر کاروباری طبقہ انکی اب لئے بھی قدر کرنا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ میاں صاحب کا تعلق ایک کاروباری خاندان یا گھرانے سے ہے تو انہیں کاروباری حلقہ کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔ اس مد میں یہ بھی حقیقت ہے کہ انکے مخالفین یا اتحادیوں میں ان کے پائے کا کوئی بزنس مین سیاستدان نہیں ہے۔ اس میں انہیں کاروباری خسارہ بھی اٹھانا پڑا لیکن ساتھ میں انہیں فوائد بھی ملے ہیں۔ انکے ماضی پر ایک نظر ڈالی جائے تو جنرل ضیا کے دور میں محمد خان جونیجو کا ساتھ چھوڑ کر جنرل ضیا کا ساتھ دینا انکا بدترین غیر جمہوری بلکہ جمہوریت دشمن فیصلہ تھا۔ پھر اپنے سیاسی مخالفین پر مقدمات کی بھرمار کرکے جیلوں میں ڈالنا جس میں سیف الرحمان کو استعمال کرکے بدترین سیاسی انتقام خصوصاً ایک سیاستدان ہوتے ہوئے دوسرے سیاستدانوں پر جسمانی تشدد کا بھی الزام اپنے سر سجانا انکی بدترین غلطیاں تھیں لاہور پولیس کے ایک اہلکار کے ذریعے آصف زرداری کی زبان کاٹنے کی خبر بھی چلی تھی۔ پھر وہ بھی وقت آیا کہ جو بویا تھا وہ پلکوں سے چننا بھی پڑا۔ قیدوبند کی صعوبتیں تو تھیں ہی لیکن اپنی والدہ کی وفات کے موقعہ پر انکے قدموں سے دور اپنے کا دکھ اور پھر اپنی شریک حیات بیگم کلثوم نواز کی بیماری اور انکی وفات سے پہلے ان سے بات تک نہ کرسکتا بھی ایک بڑا تکلیف دہ مرحلہ تھا مجھے اس چیز کا بخوبی اندزہ ہے اس لئے کہ جب میری والدہ ماجدہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو میں وطن بدر تھا اور انکے جنازہ میں شریک ہو نہ سکا۔ ملک بدری بھی ایک دکھ ہے اپنے پیاروں سے دور غیر ملک میں اجبنی لوگوں میں گھرا تنہا تنہا سا محسوس کرنا ایک عذاب سے گزرنا ہے ایسے میں کسی پیارے کا جدا ہونا ایک ایسا صدمہ ہے جو ساری زندگی کے لئے ایک کانٹے کی طرح دل میں چبھا رہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ پاک کسی دشمن کو بھی ایسا دکھ نہ دے۔ اب خیر سے میاں صاحب ملک میں آگئے ہیں اور شاید میں سپریم کورٹ میں بندیالی ججوں نے9مئی کے مجرموں کو فوجی عدالتوں میں مقدمہ اور آئین سے انحراف قرار دیا ہے فقطہ ایک جج جسٹس یحیٰی آفریدی نے باقی چار ججوں سے اختلاف کیا جن میں جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں جن کی تقرری پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ متنازعہ ججوں کو پتہ ہے کہ انکی تقرری کو تنزلی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسلئے انہوں نے تحریک انصاف کے کارکنان جنہیں عرف عام میں یوتھیئے بھی کہا جاتا ہے انکو خوش کرکے اپنے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو چاہئے کہ وہ باقی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیکر میثاق جمہوریت جیسی ایک قرار داد بنائے جس میں تمام جماعتیں ہے عہد کریں کہ آئندہ کسی جماعت یا سیاستدان کو سیاسی بنیادوںپر نشانہ نہیں بنایا جائیگا اور انتقامی سیاست کو آئندہ کے لئے شجر ممنوعہ قرار دیکر اس باب کو ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جائیگا۔ بدنام زمانہ نیب کی بساط بھی مستقل طور پر لپیٹنا چاہئے۔ وزیروں مشیروں کے مراعات سرکاری افسران کے برابر لاکر اس ملک جو مالی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے اس کے خزانے پر سے بوجھ کم کیا جائے تاکہ غریب عوام کا بوجھ گھٹایا جاسکے فری لامحدود سہولیات کی لعنت کو مکمل طور پر ختم کرکے عوام کو یقین دلایا جائے کہ انکے مسائل پر پوری توجہ دی جارہی ہے اور ہر مرتبہ عوام سے قربانی کا تقاضہ کرنے کے بجائے اب وزراء اور مشیران کے مراعات کی قربانی دی جارہی۔ مسلم لیگ ن کی پوری توجہ شہری طبقات پر ہوتی ہے اسلئے دیہی علائقہ پسی کا شکار ہو جاتے ہیں شہروں میں بھی مل مالکان کو تو مرعات دی جاتیں ہیں۔ مزدور پیچھے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کی ساتھ فیصد سے زیادہ آبادی زراعت کے پیشہ سے منسلک ہیں تواسلئے ضرورت اس بات کی ہے زرعی صنعت میں خودکار مشینری کی پیداوار اور زرعی یونیورسٹیوں کی تحقیق کر بروئے کار لاکر زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے تاکہ خوراک کی کمی پر قابو پایا جاسکے اور ملک کے غرباء بھوکے نہ سوئیں۔ اسکے لئے ایک میثاق معیشت کا معاہدہ بھی بنایا جائے۔ جس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ خوراک کا مسئلہ عالمی سطح پر بھی اہمیت اختیلار کر رہا ہے۔ گند درآمد کرنے کے بجائے پاکستان گندم برآمد کرسکتا ہے۔ اسی طح چاول او دوسری اجناس جیسا کے پیاز، آلو اور مختلف اقسام کی دالیں بھی زیادہ سے زیادہ پیدا کرنے پر توجہ دی جائے غریب آدمی کو جب پیٹ بھر کر کھانا ملیگا تب ہی ملک ترقی کر پائیگا۔ پرتعیش چیزیں اور مہنگی گاڑیوں پر زرمبادلہ کو ضائع کرنا پاکستان کو کسی صورت ججتا نہیں جو ملک قرض میں ڈوبا ہو غریب بھوک سے بلبلاتے بچوں کو دیکر سارے گھرانے سمیت خودکشیاں کر رہے ہوں اس ملک کے امرا اور وزراء اللے تللے کریں یہ نہایت شرمناک عمل ہے ہر باضمیر انسان کو شرم آنی چاہئے لیکن لگتا ہے کہ یہ لوگ بے حس ہوگئے ہیں!
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here