کیا کوئی علم ہے کہ پاکستان میں احتساب کا ایک ادارہ نیب بھی اپنا کوئی وجود رکھتا ہے، مدت ہو گئی ہے اس ادارے کے چیئرمین کا نہ کوئی بیان نظر سے گزرا ہے، اور نہ ہی کرپشن کی کوئی بڑی داستان سننے کو ملتی ہے۔چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ نون کے دور میں کرپشن انڈیکس میں پاکستان میں کرپشن خاتمے میں نمایاں بہتری کا کریڈٹ بڑے زور و شور سے اپنے آپ کو دیتے تھے، مجھے ذاتی طور پر پاکستان میں نیب کا ادارہ بطور بیٹ رپورٹر کور کرنے کا موقع ملا تھا تو آج بھی یاد ہے کہ ہر روز ایک پریس ریلیز جاری ہوتی، جس میں پاکستان تحریک انصاف کی حریف جماعتوں کے کسی نہ کسی رہنما پر کرپشن الزامات لگا کر پہلے اس کی عزت تار تار کی جاتی اور اسی نیب اعلامیہ میں چیئرمین نیب بڑے فخر سے بتاتے کہ پاکستان کا رینک 124 سے 116 پر آنا دراصل انہی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ وقت کا انتقام واقعی برا ہوتا ہے، آج پاکستان میں کرپشن اسی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق دوبارہ کس حد تک بڑھ چکی ہے، یہ دیکھ کر اس ایماندار حکومت کی شاباش تو بنتی ہی ہے مگر اصل شاباش کے حقدار وہ چیئرمین نیب ہیں جو بڑے فخر سے اس بات کا کریڈٹ لیا کرتے تھے۔۔۔۔ضروری نہیں کہ ہر بات پر تنقید کی جائے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کے باوجود عمران خان اور کچھ مہربانوں کی مہربانیوں کی وجہ سے اتنی تنقید نہیں ہوئی جتنی شاید کوئی اور سیاسی پارٹی حکومت میں ہوتی اور اس سے اس قدر غلطیاں ہونے کے بعد تنقید کا جو عذاب ان کو سہنا پڑتا۔الیکشن 2018 سے قبل مسلم لیگ نون کے خلاف تنقید کا وہ طوفانِ بدتمیزی برپا تھا کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو کر رہ گئی۔دراصل یہی وجہ ہے کہ نہ تو مراد سعید کے وہ دو ارب ڈالر بیرون ملک سے واپس آ سکے، نہ ہی سوئس بینکوں کے اکانٹ خالی ہوئے اور نہ ہی نواز شریف کے پانچ ارب ڈالر قومی خزانے میں جمع ہو سکے، جو اس وقت تک میڈیا کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے حکومت سے ڈیل کے نتیجے اور سیاست سے توبہ کرنے کے نتیجے میں حاکم وقت کو جمع کروانے تھے۔ دراصل یہ سب جھوٹ اور پروپیگنڈے کی ایک ایسی جنگ تھی، جس کا بلاآخر نقصان حکومت کو ہوا۔عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو بھی جائے، مگر پھر بھی تاریخ میں عمران خان کی حکومت کو ایک ناکام حکومت ہی لکھا جائے گا۔ تاریخ میں ہر کام پہلی بار کرنے کا دعوی کرنے والی حکومت کے لیے یہ ایک تاریخی ناکامی ہوگی۔
٭٭٭