ہماری پہچان !!!

0
81
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

اگر ہم اللہ ورسول کے نام تک رہتے تو مسلمان تھے اگر عمل کرتے تو مومن کہلاتے اگر تقویٰ اختیار کرتے تو محسنین میں شمار ہوتے۔ اس سے بڑی ہماری پہچان کیا ہے کسی پیر کے مرید ہوئے کسی استاد کے قریب ہوئے۔ کسی لیڈر کے مقتعد ہوئے تو ہمارے نام کے ساتھ لاحقے شروع ہوگئے۔ کسی امام کے مقلہ ہوئے تو ایک نیا نام ہمارے ساتھ جڑ گیا۔ چلو اس حد تک بھی کوئی بات نہیں تھی مگر دوسروں کو زبردستی منوانا شروع کردیا۔ جو نہ مانے اس پر انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے کفر کا فتویٰ جڑ دیا پھر شخصیات کے ساتھ اپنی انتہائی وابستگی ظاہر کرکے دوسروں کو طعن وتشنیع شروع کردی اور جتھے وجود میں آنا شروع ہوگئے۔ مار دھاڑ کا عنصر ان جتھوں میں در آیا اور پھر اس لڑائی کا فائدہ میرزا جہلمی اور غامدی جیسے لوگوں نے بھرپور اٹھایا۔ ان دونوں کا کام بڑا عجیب وغریب ہے۔ مثلاً سرکار کے آخری خطبے کے موقع پر کم ازکم ایک لاکھ چوبیس ہزار یا کم وبیش صحابہ کرام تھے ،اس کے بعد وہ سرکار دو عالم کا پیغام لے کر دنیا میں بکھر گئے۔ ہمارے پاس چند صحابہ کرام کے نام اور کام کے ادارک ہے۔ باقی صحابہ کرام کہاں گئے؟ کہاں تبلیغ کی؟ کتنے مسلمان گئے ہمارے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ ظاہر ہے ، تقاضا بشریت ان کے اختلاف بھی رہے ہوں گے، لڑائی بھڑائی بھی ہوئی ہوگی لیکن ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے لیکن ایک بات ثابت شدہ ہے کہ ہمارے اندر کلام الٰہی موجود ہے۔ اللہ پاک کی مقدس کتاب جو ہر قسم کے شک وشبہ سے پاک ہے۔ اس میں لکھا ہے۔ جو پڑھ رہے ہیں۔ اور پڑھتے رہیں گے۔ اس میں یوں لکھا ہے (رضی اللہ عنھم و رضوعنہ) صحابہ کرام سے اللہ راضی ہوگیا اور صحابہ کرام اللہ سے راضی ہوگئے۔ اب ہمیں کسی صحابی کی زندگی کھو جنے کی ضرورت نہیں وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ ان سے راضی ہوگئے۔ اب مرزا جہلمی عرف مرزا پھکی کسی نہ کسی صحابی کی زندگی سے ان کے اس دور کے جھگڑوں کو اجاگر کرکے پھر کسی ایک کا ساتھی بن کر انتہائی برے طریقے سے وہ صحابہ کرام پر طعن وتشنیع کرتا ہے۔ پھر اہل بیت نبوت کا شیدائی بن کر خلفاء ثلاثہ پر طعن وتشنیع کرتا ہے۔ ایسے ایسے بے ہودہ کلمات کہتا ہے۔ ہم سن بھی نہیں سکتے۔ سوشل میڈیا ایک جنگل ہے۔ اس کے بنانے والوں نے عجیب ترکیب نکالی ہے پیسہ پھینک تماشا دیکھ جتنے زیادہ آپ کے فالورز ہوں گے اسے اتنے زیادہ ڈالر ملیں گے۔ مرزا جلہمی پاگل ہے وہ سیدھی باتیں کرے وہ سارا دن اس کام پہ خرچ کرتا ہے کہ اُمت محمدیہ ۖ کو کس طرح برباد کرے۔ دیوانے لوگ محبت میں اس کی خباثت کو شیئر کرتے رہتے ہیں اس کے پیسے بن رہے ہیں۔ میرزا قادیانی نے بھی شروع اسی کام سے کیا تھا کہ اختلاف اُمت کو ہوا دیکر جگہ بنائی جائے پھر بتدریج دعویٰ جات کئے جائیں اور پھر انجام ہمارے سامنے ہے۔ مدت بعد امت نے ہاتھ ڈالا اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اب وقت ہے مرزا پھکی کو یہی دبا دیا جائے وگرنہ یہ بھی ایک نیا فتنہ جنم دے گا۔ اے میرے بھولے بھالے بھائیو، محبت جس سے مرضی کریں۔ مقلد جس امام کے مرضی بنائیں۔ جس کے مرضی مرید ہوں۔ جس لیڈر سے مرضی محبت کریں۔ مگر اپنی پہچان صرف اللہ اور اس کے رسول تک رکھیں۔ ہر بات مانی جائے وہ خدا ہے ہر بندہ مقتد ہو وہ رسول کریمۖ ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here