پاکستان کے معروف دانشور انور مقصود کا ایک مکالمہ بہت مشہور ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ “پاکستان کو ہمسایہ ممالک اچھے نہیں ملے، ایک طرف بھارت اور دوسری جانب افغانستان ہے، سمجھ نہیں آتا کہ قائداعظم کو یہ پلاٹ لینے کی کیا ضرورت تھی”
اگرچہ انور مقصود نے یہ بات مذاق میں کہی تھی مگر میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر آج قائداعظم زندہ ہوتے تو شاید وہ بھی سوچ رہے ہوتے کہ مجھے یہ پلاٹ لینے کی کیا ضرورت تھی۔قیام پاکستان کے ابتدائی چند سالوں کے بعد سے یہ پلاٹ مصلحتوں کے تھال میں رکھ کر سیاستدانوں نے فوجی جرنیلوں کو بیچا اور کبھی کبھار فوجی جرنیل اسے سیاستدانوں کو لیز پر دے دیتے ہیں۔آج کل پاکستان کی لیز مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں پر مبنی اتحاد پی ڈی ایم کے پاس ہے مگر اس لیز کی معیاد فوجی جرنیلوں نے جو بھی طے کی تھی وہ پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔
دیکھا جائے تو سرزمین پاکستان پر آجکل پٹوار خانے کا کردار عدلیہ ادا کر رہی ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ لیز کب تک موثر رہے گی اور آئندہ یہ لیز کس کو دینی ہے۔
میرا یہ خیال اس وقت یقین میں بدل گیا جب مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ آصف کو ایک نجی ٹی وی چینل پر یہ کہتے سنا کہ سارا معاملہ ستمبر کا ہے۔آخر کار ستمبر کا معاملہ ہے کیا؟
ستمبر کا معاملہ اتنا ہے کہ پاکستان کے اس پٹوار خانے کا گرداور بدلنے جا رہا ہے اور نئے گرداور سے موجودہ گرداور تحصیل داروں کو خطرہ ہے کہ وہ کہیں اس لیز کی معیاد میں توسیع کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے آئندہ چند سالوں تک نہ صرف اس لیز کی قانونی حیثیت پر مہر ثبت کر دیں اور سابقہ گرداور کا بھی کہیں قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا نا کردیں۔
یوں لگتا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر پرانے ٹھیکے داروں کے ہاتھوں میں دینے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے، مگر اب کی بار حالات مکمل طور پر مختلف ہیں، نہ صرف ملک کی معاشی حالت اس وقت لنگڑا رہی ہے بلکہ حکومتی گاڑی بھی ایسے ڈرائیور کے ہاتھ میں دینے کے حوالے سے ہچکچاہٹ موجود ہے، جس پر سے پٹوار خانے کا اعتماد اٹھ چکا ہو۔ ایسی صورت میں بھی آپ کی طرح سوچ رہا ہوں کہ پٹوار خانے کو اگر نئے ڈرائیور کی ضرورت ہے، تو وہ نیا ڈرائیور کون ہوگا؟
٭٭٭