قوم بدحال،بزنس کمیونٹی بے چین ، غریب آٹے کے لئے قطاروں میں خوار، خزانہ خالی، ڈالر ناپید ،اناج کے کنٹینرز کراچی پورٹ پر کھڑے، نا بجلی نا گیس نا پانی،کشکول خالی،بینک اجڑ گئے ۔ حکمران ،جوڑ توڑ،لوٹ مار میں مصروف، گندم پیدا کرنے والے زرعی ملک میں آٹا قطاروں اور لائنوں میں بھی نہیں مل رہا۔آٹے کے حصول کے لئے کئی لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ پاکستان میں آٹا ایک سو تیس روپے کلو ۔ بھارت میں تیس روپے کلو اور افغانستان میں ساٹھ روپے کلو ہے۔زراعت پر کوئی توجہ نہیں، پورا پاکستان بجلی سے محروم اور اندھیروں میں ڈوبا ہے۔ کوئی والی وارث اور مائی باپ نہیں۔ حکمرانوں نے قوم کو عذاب میں دھکیل دیا ہے۔ کوئی قومی ایجنڈا ہے اور ناہی فیوچر پلاننگ، ڈنگ ٹپا،مال بنا، لوٹو اور پہوٹو کی پالیسی ہے۔ پی ٹی آئی کبھی اسمبلیاں توڑتی ہے۔ اور کبھی استعفے دیتی ہے۔ بیدار ہونے پر استعفے واپس لینے کی درخواستیں دیتی ہے۔ کوئی وژن اور عوامی ایجنڈا نہیں۔ سیاسی گماشتے الیکشن الیکشن کے کھیل کود میں مصروف،پاکستانی پریشان حال ،سیاست ٹائیگر، شیر ، جیالے اور مہاجر کے حصار میں۔ پولیٹیکل ڈائیلاگ کا فقدان۔ اسٹبلشمنٹ خاموش تماشائی۔ اسٹبلشمنٹ کی بے شرمی، ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ ادارے سسکیاں لے رہے ہیں۔ Baggers or not Closers نے ملک کو ڈبو دیا ہے۔ حالات انتہائی سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔ وزیر توانائی خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں بجلی کے بریک ڈان میں بیرونی ہاتھ خارج ازامکان نہیں۔اوگرا کے مطابق پندرہ دن کا پٹرول کے ذخائر ہیں۔ شرح سود سترہ فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ میڈیا مینجمنٹ عوام کی کسمپرسی،خودکشیوں۔ کو نہیں دکھا رہا۔لوگ بلک اور سسک رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ عوام بے آسرا،مجبور،اور پریشان۔ خدارا اپنے مستقبل کی قدر کیجئے۔اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے اس لیڈر شپ کو منتخب کیجئے جو قومی ہیروز کی قربانیوں کی قدر کرتی ہے۔ جو بانیان پاکستان کا احترام کرتی ہے۔ جن کا اوڑھنا بچہونا مملکت خداداد میں کلمہ طیبہ کا احیا ہے۔ جونظریہ پاکستان کو علامہ اقبال کے فلسفہ کے مطابق اور قائداعظم کی امنگوں کے مطابق تعمیر کرئے۔ وہ لیڈرشپ آپکے درمیان موجود ہے۔ دیانتدار اور ایماندار ہے۔ وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ صرف جماعت اسلامی ۔ اس کو ووٹ دیکر اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیجئے۔اسٹبلشمنٹ کے مہرے آپکے خوابوں کے دشمن ہیں۔ اسٹبلشمنٹ وہ غلیظ ترین ادارہ ہے جسے عوام کی کوئی پروا نہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہو یا چور مسلط ہوں۔ ڈالر ڈھائی سو کا ہو یا پیاز ،لسن ،گندم سے لدے سات ہزار کنٹینرز کراچی بندرگاہ پر کھڑے ہوں ۔ جنہیں ہم نہیں چھڑوا سکتے۔ ووٹ کو عزت دو کے سرخیل ڈیل کریں یا ڈھیل ۔ملک سے دولت لوٹ کر بھاگیں یا ادراروں کو تباہ کریں ۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہئں۔لاوارث قوم مجرموں کے لئے نعرے لگائے یا انہیں جوتے مارے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے ان مجرموں۔قومی چوروں۔ لٹیرے جرنیلوں ۔ بددیانت ججوں کو قانون کے کٹہرے میں صرف وہ کا سکتے ھیں جن کے ہاتھ صاف ہوں ۔ پیٹ میں حرام مال نہ ہو ۔ وہ صرف اور صرف جماعت اسلامی ہے۔ خدارا !۔ اگر بحیثیت قوم اپنا وقار دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہو۔ مجرموں ،ڈاکوں سے نجات چاہتے ہو تو جماعت اسلامی کو ووٹ دو۔ پولیٹکل ڈائیلاگ۔رولز آف الیکشن۔رولز آف کریکٹر طے ہونے چاہیں۔سہولت کار۔ خلائی مخلوق۔خفیہ ہاتھ اور اسٹبلشمنٹ کو الیکشن پراسیس پر اثر انداز ہونے کا کھیل بند کرنا چاہئے۔ تاکہ ڈیموکریٹک معاشرہ کھڑا ہوسکے۔ہم نیوکلئیر پاور۔دنیا کی پانچویں بڑی فوج۔مزائیل ٹیکنالوجی میں چوتھی بڑی قوت۔آبادی اور زرعی اعتبار سے پانچواں بڑا ملک۔ بجلی کی فراہمی میں فیل اسٹیٹ اناج کی فراہمی میں فیل ریاست۔قوم لاوارث۔عدالتیں مجرموں کی پناہ گاہیں۔اسمبلیاں کریمنلز آماجگاہیں۔ خیر ہو یا شر ہو۔ نیکی ہو یا بدی ہو۔ لیکن ہر چیز کا تناسب ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ وہ معاشرہ ہے۔ جہاں زندگی کاکوئی معیار نہیں۔ معاشی ،اخلاقی اور سیاسی دہشت گردوں نے ملک تباہ کردیا ہے۔ بن پیندے لوٹے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں ہم نظریاتی مملکت اور معاشرہ میں رہتے ہیں۔ جہاں دودھ میں کیمیکل، چنے اور دال میں کنکر، مرچوں میں برادہ، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے،گھی میں جانوروں کی چربی،عدالتوں میں بے انصافی،ٹھکانوں میں مجرموں کی رسائی۔پھل اور گوشت کو پانی کے ٹیکے۔ عوام،بجلی،گیس اور صاف پانی اے محروم۔پی ٹی آئی،اور پی ڈی ایم سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ۔ آٹا کے لئے لمبی لمبی قطاریں۔عوام انہی مجرموں ۔بن پیندے لوٹوں وقت آزمائے ہوئے گماشتوں کے سحر میں مبتلا۔ چونکہ روایتی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔آنکھ میں حیا نہیں ہوتی۔ کہوپڑی میں بھیجا نہیں ہوتا۔ ٹٹ پونجئے، نااہل، بددیانت،بے ضمیر اسمبلیوں میں بیٹھے ہوں تو ملکی حالات سدھر نہیں سکتے۔ نا اس ملک میں جمہوریت ہے اور نا انسانی حقوق ۔ اور نا ہی اخلاقی روایات ۔ جانور اور انسان ایک ھی جگہ پانی پیتے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے ہوکر آٹا حاصل کرتے ہیں۔ * دنیا کے کسی معاشرے اور سوسائٹی میں پولرازیشن ہو۔ بکھری ہو ڈیوائڈ سوسائیٹی ہو۔ معاشی دہشت گردی ہو۔ناانصافی ہو۔ وہ معاشرہ ترقی نہئں کرسکتا۔ *ایک باوردی جنرل کو ایکسٹینشن کے لئے پوری پارلیمنٹ دو منٹ میں بل پاس کرتی ہے۔ لیکن عوامی مسائل۔ مہنگائی اور کرپشن پر نا کوئی قانون سازی ہے۔ اور نا ہی خرامزادے پارلیمنٹرین۔ چوری لیڈر قانون سازی کے لئے تیار نہیں۔
*ہم معاشی تباہی اورسیاسی تباہی،معاشرتی تباہی اور اخلاقی تباہی کے دبانے پرکھڑے ہیں۔ عدالتیں زوال کا شکار ہے۔ بلین ڈالر مین اسحاق ڈالر معاشی جادو دکھانے سے قاصر رہے۔ کیونکہ یہ خود ہی معاشی دہشت گرد ہیں۔ جماعت اسلامی کے نزدیک یہ قومی مجرم ہیں۔ جنہوں نے قوم کو ڈلیور نہیں کیا۔ احتساب نہئں کیا۔ ریفارمز نہیں کیں۔ زراعت،بجلی،گیس ،پٹرول ،صاف پانی پر کوئی توجہ نہئں دی۔ اسلئے مہنگائی کا جن بے قابو ہے۔ پی ٹی آئی کی ساری قیادت ۔ پی ٹی آئی کے سابق وزرا ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سبھی ن لیگ،مشرف لیگ،ایم کیو ایم اور پی پی پی کے لوگ تھے۔ یہ تبدیلی کیسے لا سکتے ہیں۔ اسلئے یہ سبھی ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ نئی لیڈرشپ کو گروم نہیں کیا گیا۔کالجز میں یونین کو بین کردیا گیا جہاں سے شائنگ سٹار نوجوان اسمبلیوں میں پہنچتے تھے۔ پی ٹی آئی نوجوانوں کی بات کرتی ہے۔ مگر چار سال میں نا یونینز سے پابندی اٹھائی اور نا نوجوانوں کو ایمپاور کیا۔تمام پارٹیوں جمہوریت کی بات کرتی ہیں ۔ انکے نا پارٹی الیکشن اور ناہی کوئی ڈیموکریٹ پراسیس ہے۔ ان میں الیکشن کا انعقاد نہیں ہوتا۔ اس لئے کوئی ایسی لیڈر شپ ابھر کر نہیں آسکی ۔جو ذوالفقار علی بھٹو ،قاضی حسین احمد ،مولانا شاہ احمد نورانی۔ولی خان۔ سید منور حسن،پروفیسر غفور ،پروفیسر این ڈی خان، لیاقت بلوچ، جاوید ہاشمی، خافظ سلمان بٹ،جیسے لیڈروں کو پیدا کرتی ۔ سیاسی ویکیوم اور موجودہ خلا کو پر کرسکتی۔غیر تربیت یافتہ، ان پڑھ، اجڈ وڈیرے اور لٹیرے اسمبلیوں میں گدھ کی طرح قابض ہیں۔ جو اقربا پروری، خاندانی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ غیر تربیت یافتہ سیاسی کارکن ہیں۔ جو شخصیت پرستی میں ساری زندگی وفاداریاں نبھاتے نبھاتے بوڑھے ہو گئے ہیں۔ جنہیں ناپاک لیڈروں کے تلوے چاٹنے اور بوٹ اٹھانے کے علاوہ کوئی اور سروکار نہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک نظریاتی، اسلامی ریاست تھا۔ جو دو قومی نظریہ میں بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی۔انگریزوں کے شاگرد متحرک ہوگئے ۔ جس سے رائٹ اور لیفٹ کی سیاست نے جنم لیا ۔ایک طرف لبرل،آزاد خیال،سوشلسٹ، کیمونسٹ اور غیر نظریاتی لوگ تھے۔ تو دوسری طرف نظریاتی،اسلام پسند،معتدل مزاج لوگ تھے۔ گزشتہ دس پندرہ سال میں رائٹ اور لفٹ کی سیاست دفن ہو چکی ہے۔ پاکستان بنانے والوں کی اولادیں ۔ اور مسلم لیگ عالمی استعمار کی پٹہو جماعت بن گئی ۔لبرل اور خاندانی پارٹی بن گئی ۔پی پی پی روز اول سے آزاد خیال اور لبرل گروپ تھا۔ اب پی ٹی آئی کی شکل میں ایک ایسا گروپ تشکیل پاچکا ہے۔ جو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہے۔ جو مذہب کارڈ کھیل کر نوجوان نسل کے جذبات کو کیش کررہا ہے۔ ریاست مدینہ کے نام پر قوم کو بیووقوف بنایا جارہا ہے۔ انکے چار سالہ دور میں ریاست مدینہ کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دی۔
قارئین ! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیے فواد چوہدری، شیریں مزاری ،اسد عمر۔ قریشی کے ہاتھوں ریاست مدینہ وجود میں آسکتی ہے۔ یہی وزرا مشرف دور میں مادر پدرآزاد معاشرہ کو سپورٹ کرتے تھے۔ بے حیائی اور میرا جسم میری مرضی کو سپورٹ کرتے تھے۔ آج انہوں نے نوجوان نسل کو بدتمیز، بدتہذیب بنادیا ہے۔ اس لئے قوم کو سوچنا چاہئے ۔ یہ سبھی لفٹ ونگ کے لوگ ہیں۔ غیر سنجیدہ اور غیر نظریاتی لوگوں کا ہجوم ہے۔ اگر آپ واقعی ایمانت و دیانت ۔ اخلاق و کردار ۔ متقی اور صالحیت پر یقین رکھتے توپھر جماعت اسلامی کے صالح، باکردار اور ایماندار لوگ آپکے سامنے موجود ہیں۔ ووٹ ایک ایمانت ہے۔ جو آپکے ملک میں حسن معاشرت ۔فیوچر جنریشن کی مذہبی اور اخلاقی قدریوں ۔تہذیب و تمدن اور نظریات سے وابستہ ہے۔ اس لئے ان درندوں کو ووٹ دینے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ آپکا صیح فیصلہ ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ اس کی خفاظت کیجئے۔ حقدار کو ووٹ دیجئے۔ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔ اپنی ایمانت کو ایمانت داروں کے سپرد کریں۔ پاکستان میں ووٹ کی حقدار صرف اور صرف جماعت اسلامی ہے۔ آئیندہ الیکشن میں جماعت اسلامی کو ووٹ دیکر حقیقی فلاحی اور اصلاحی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیجئے۔ یہ ہمارا، اخلاقی ،ایمانی اور مذہبی فریضہ ہے۔
٭٭٭