غزہ جنگ عالمی کشیدگی کا سبب!!!

0
49
شمیم سیّد
شمیم سیّد

انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے مشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 24 فروری 2022 کے بعد یوکرین میں 10,582 شہری ہلاک اور 19,875 زخمی ہو چکے ہیں۔ تاہم حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے، ہزاروں بے گھر ہو گئے اور سیکڑوں طبی و تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس تباہی کے نتیجے میں صحت و تعلیم کا بنیادی حق بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے گزشتہ دو برس میں افواج کے ہاتھوں شہریوں پر تشدد، بدسلوکی اور ان کی ناجائز حراست کی تفصیلات جمع کی ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کا عندیہ سامنے آیا ہے۔نیتن یاہو کی جنگی کابینہ نے اس سلسلے میں اتحادی ممالک کو اعتماد میں لینے کے لئے رابطے کئے ہیں۔دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں چین نے یوکرین کے تنازع کو سیاسی انداز میں حل کرنے پر زور دیا ہے۔غزہ میں اسرائیلی حملوں کو چار ماہ سے زائد ہو چکے ہیں جبکہ یوکرین روس جنگ دوسال مکمل کر چکی ہے۔ان دونوں جنگوں مین ہزاروں افراد موت کے منہ میں گئے ہیں اور عالمی کشیدگی کو بڑھاوا ملا۔غزہ پر اسرائیلی حملے نے جہاں عالمی امن کی بحالی کے نظام کی ساکھ پر سوال اٹھائے وہاں یہ سوال بھی ابھارا کہ کمزور اقوام اپنا تحفظ کیسے کر سکتی ہیں۔مشرق وسطی جیسے حساس خطے پر اس جنگ نے تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔یوکرین جنگ سے توانائی اور خوراک کا بحران پوری دنیا میں پھیلا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان بین الاقوامی مشکلات کے پیش نظر یہ تنازعات جلد حل کر لئے جاتے لیکن ایسا نہ ہونا بتاتا ہے کہ عالمی نظام خاص طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے جو اپنا مقصد حل ہونے تک مسائل حل ہونے میں دلچسپی نہیں لیتیں۔ ان میں مقبوضہ علاقوں میں ماورائے عدالت ہلاکتوں، جبری گمشدگیوں اور اظہار و اجتماع کی آزادی کے حق پر جبر جیسے واقعات بھی شامل ہیں۔ جنگ شروع ہونے کے بعد یوکرین میں خاندان بکھر گئے ہیں، بچے بے گھر ہو گئے ہیں اور معاشرہ تباہی کا سامنا کر رہا ہے۔ اس وقت تقریبا 37 لاکھ لوگ اندرون ملک بے گھر ہیں جبکہ 65 لاکھ نے دیگر ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔ اب تک مجموعی طور پر 45 لاکھ لوگ اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ رواں سال یوکرین میں ایک کروڑ 46 لاکھ افراد یا 40 فیصد آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہو گی۔ اسی طرح ہمسایہ ممالک میں یوکرین کے 22 لاکھ پناہ گزینوں کو بھی مدد درکار ہے۔ اس جنگ کے دوران ادارے نے اب تک اندرون ملک اور 11 ہمسایہ ممالک میں یوکرین کے 65 لاکھ لوگوں کو ضروری مدد فراہم کی ہے۔ادارے کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ یوکرین کو بڑے پیمانے پر تباہی، انسانی نقصان اور تکالیف کا سامنا ہے۔ ضروریات بہت زیادہ ہیں اور انہیں پورا کرنے کے لیے مزید بہت سے اقدامات درکار ہوں گے۔روس کے نقصانات اور مسائل کے متعلق معلومات الگ سے تشویش کا باعث ہیں۔غزہ کی جنگ اپنے پانچویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی کے بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ شہری ہلاکتوں کی تعداد اکیسویں صدی میں تنازعات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہو چکی ہے۔اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کے آپریشن کے جواب میں جنگ کا آغاز کیا اور وہ اسے دنیا بھر سے آنے والی امن اپیلوں کے باوجود جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیابین نتن یاہو نے سات فروری کو کہا کہ وہ حماس کو ختم کرنے، یرغمالیوں کو رہا کرنے اور اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے اپنے راستے پر گامزن ہیں کہ اسرائیل کو غزہ سے مزید کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔اسرائیل کی سفاک کارروئیوں پر جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا ہے۔اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان الزامات کو وہ انتہائی مضحکہ خیز سمجھتا ہے۔ اسرائیل اب تک کئی مہینوں کی تصادم کے بعد غزہ میں حماس کی تحریک کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق حماس کے عسکری ونگ میں تیس ہزار جنگجو ہیں، اسرائیلی فوج کا دعوی ہے کہ اس نے حماس کے ایک تہائی جنگجووں کو مار دیا ہے جبکہ 16 ہزار زخمی ہیں جو کہ حماس کی عسکری صلاحیتوں کے لیے ایک دھچکا ہو سکتا ہے۔تاہم امریکی اندازوں کے مطابق زخمی ہونے والوں کی تعداد 11,700 سے کم ہے اور ان میں سے بہت سے میدان جنگ میں واپس آ سکتے ہیں۔ بعض امریکی ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اسرائیل حماس کی صلاحیت کو ختم کرتا رہے گا۔نیتن یاہو اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصے تک دائیں بازو کی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں، وہ مستقبل قریب میں غزہ پر سکیورٹی کنٹرول کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔یوکرین اور غزہ کی جنگیں اور کشمیر کی تحریک حریت بتاتی ہے کہ عالمی برادری کو امن اقدامات کے لئے ان تنازعات کی روشنی میں اپنا کردار از سر نو استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم حماس کی جانب سے اس تعداد کی تصدیق نہیں کی گئی۔ دنیا کے اکثر ممالک کا ماننا ہے کہ غزہ میں امن معاہدہ ہی محفوظ مستقبل کا واحد راستہ ہے۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جس کی حمایت کی جارہی ہے۔اگر کوئی حماس کو پسماندہ اور کمزور کرنا چاہتا ہے تو ایسا کرنے کا واحد راستہ ایک اہم سیاسی حل پر پہنچنا ہے تاہم اسرائیل کی موجودہ حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے بضد نظر آتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here