نیویارک (پاکستان نیوز)امریکہ نے پاکستانی قیدی ماجد خان کو سولہ برس بعد گوانتانامو بے جیل سے رہا کرکے وسطی امریکی ملک بیلیز منتقل کر دیا ہے۔ آنے والے ہفتوں میں مزید دو پاکستانی قیدیوں کو اس بدنام زمانہ جیل سے رہا کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔پاکستانی نژاد امریکی شہری ماجد خان کو مارچ 2003 میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے تین برس تک خفیہ ٹھکانوں پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر کیوبا میں واقع بدنام زمانہ گوانتانامو بے جیل میں ڈال دیا۔ 42 سالہ ماجد خان کو دو برس قبل ہی اکتوبر2021 میں ایک فوجی عدالت نے جنگی جرائم کے مقدمے میں 26 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ البتہ ان کے بہتر رویے کے مدنظر ان کی سزا میں کمی کرتے ہوئے سن 2022 میں انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح 16 برس جیل کاٹنے کے بعد انہیں رہا ئی مل گئی۔ماجد خان نے انڈونیشیا میں 2003 میں ہوٹل بم دھماکے میں القاعدہ کو رقم کی ترسیل کے لیے بطور کوریئر کام کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ ان پر سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کے منصوبے میں شامل ہونے کا بھی الزام تھا۔وسطی امریکی ملک بیلیز کی حکومت کے ساتھ بائیڈن انتظامیہ کے معاہدے کے تحت انہیں جمعرات کو وہاں پہنچایا گیا۔ماجد خان نے اپنی قانونی ٹیم کے توسط سے جاری بیان میں اپنی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اپنے لیے دوسری زندگی قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ اپنی جوانی کے دنوں میں انہوں نے القاعدہ کے ساتھ مل کر جو کام کیا اس پر انہیں بہت افسوس ہے۔ میں ان کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ میں اس کے لیے خدا اور جن لوگوں کو مجھ سے نقصان پہنچا ہے، ان سب سے معافی کا خواستگار ہوں۔ میں حقیقتاً اس پر پشیمان ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھے زندگی میں دوسرا موقع دیا گیا ہے اور میں اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں آپ سب سے اور خاص طور پر بیلیز کے لوگوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں معاشرے کا ایک مثبت اور قانون کی پاسداری کرنے والا فرد بنوں گا اور میں آپ کو نا امید نہیں کروں گا۔ ماجد خان کی رہائی کے بعد ان کی وکیل کاٹیا جیسٹن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ایک تاریخی فتح ہے لیکن یہاں تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لگا۔ماجد خان نے فوجی عدالت کو بتایا تھا کہ ان پر کیے گئے تشدد میں لمبے عرصے تک چھت کے شہتیر سے لٹکانا، کئی دنوں تک نیند سے محروم رکھنے کے لیے برف کے پانی میں ڈالا جانا، مار پیٹ، پانی میں تشدد، جنسی زیادتی اور بھوک کا نشانہ بنانا شامل تھا۔وسطی امریکی ملک بیلیز کی کابینہ نے ماجدخان کو ملک میں منتقلی کی منظوری دی تھی۔ بیلیز کے وزیرخارجہ ایمون کورٹینی نے بتایا کہ اس کے لیے امریکی حکومت نے رقم ادا کی ہے۔کورٹینی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر خان کوئی دہشت گرد نہیں ہیں۔ وہ اپنی غلطیوں سے تائب ہوچکے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا تھا اس کی ذمہ داری قبول کرلی ہے اور اللہ سے معافی کے خواستگار ہیں۔ماجد خان کے بیلیز پہنچنے کے بعد ان سے ملاقات کرنے والے کورٹینی نے کہا کہ اب وہ ایک آزاد فرد ہیں اور اگر یہاں رہنا چاہتے ہیں تو پوری زندگی رہ سکتے ہیں۔اوباما انتظامیہ کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ امریکی حکام گوانتانامو بے کے ان قیدیوں کو قبول کرنے والے ایک تیسرے ملک کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جنہیں امریکہ اب کوئی خطرہ نہیں سمجھتا۔سعودی عرب میں پیدا ہونے والے ماجد خان کا بچپن پاکستان میں گزرا تھا اور پھر 16 برس کی عمر میں وہ امریکہ چلے گئے۔ انھوں نے امریکی ریاست بالٹی مور میں تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کے پیٹرول پمپ پر کام کیا۔ پھر سن 2002 میں پاکستان واپس آ گئے جہاں ان کا القاعدہ سے تعارف ہوا۔ان کو پہلی بار مارچ 2003 میں اس وقت حراست میں لیا گیا جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے کراچی میں اْن کے مکان پر چھاپہ مارا۔ پاکستان نے ان کو سی آئی اے کے حوالے کر دیا۔کیوبا کے ساحل پر امریکی بحریہ کے اڈے گوانتا ناموبے کی بدنام زمانہ جیل میں ایک وقت تقریباً800 قیدی تھے لیکن اب وہاں صرف 34 قیدی موجود ہیں۔ ان میں سے 20 کو رہائی کی منظوری مل چکی ہے۔ امریکی حکومت دیگر ملکوں سے انہیں قبول کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔ انہیں یا تو ان کے آبائی ملک یا پھر کسی دوسرے ملک میں بھیجا جائے گا۔ امریکی وفاقی قانون گوانتانامو کے قیدیوں کو امریکہ میں دوبارہ آباد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔پاکستان کے دیگر دو قیدی عبدالرحیم غلام ربانی اور محمد احمد غلام ربانی کی رہائی بھی جلد متوقع ہے۔ جبکہ دو ایسے قیدی ہیں جن کو فوجی کمیشن سزا سنا چکے ہیں اور تین قیدیوں کی رہائی کا جائزہ لیا جانا باقی ہے۔امریکہ نے گوانتاناموبے کے قیدی کو بیلیز منتقل کر دیا، 34 قیدی باقی ہیں۔