دنیا میں طاقت کے اظہار کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک جارحیت کے ذریعے اپنی قوت کو منوانا، اور دوسرا، تحمل اور حکمت کے ذریعے اپنی طاقت کو محفوظ رکھنا۔ پاکستان نے اپنے قیام کے بعد سے اب تک بارہا اپنی عسکری صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ افغانستان اور بھارت کے ساتھ جنگوں میں پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ وہ کسی بھی جارح قوت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوسکتا ہے۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنی پالیسیوں میں ایک نئے باب کا آغاز کرے طاقت کے اظہار سے زیادہ طاقت کے دفاع کو ترجیح دے, پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، ایک ایسی ریاست جو دفاعی صلاحیتوں کے لحاظ سے دنیا کے مضبوط ترین ممالک میں شمار ہوتی ہے۔ مگر طاقت صرف ہتھیاروں کا نام نہیں۔ طاقت اس حکمت کا نام ہے جس کے ذریعے ایک ملک اپنے مفادات کا تحفظ بغیر لڑائی کے کرتا ہے۔ آج کے عالمی حالات میں عسکری تصادم سے زیادہ اہم ہے کہ ایک ملک اپنی اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب خطے میں امن قائم ہو۔پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اس کے مستقبل کی معیشت سے براہ راست جڑے ہیں۔ چین، ایران، افغانستان، بھارت اور وسطی ایشیائی ریاستیں سب پاکستان کے قدرتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر چین کا کردار پاکستان کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے، مگر اس نے یہ مقام جنگوں یا دھمکیوں سے نہیں بلکہ صبر، منصوبہ بندی اور سفارتکاری سے حاصل کیا۔ چین کی پالیسی ہے کہ طاقت کا خوف اس کے اظہار سے بہتر ہے۔ یعنی طاقت کو ظاہر کرنے سے زیادہ ضروری ہے اسے اپنے دفاع اور استحکام کے لیے محفوظ رکھنا۔ پاکستان کو یہی سبق اپنانا چاہیے۔افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بداعتمادی کی فضا طویل عرصے سے چلی آرہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پرامن افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اگر افغانستان میں امن ہوگا تو تجارتی راستے کھلیں گے، خطے میں سرمایہ کاری بڑھے گی، اور پاکستان کو وسطی ایشیا تک براہِ راست رسائی حاصل ہوگی۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ اختلافات کے باوجود یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے بغیر پاکستان اپنی معیشت کو مستحکم نہیں کر سکتا۔ دنیا کے اکثر خطوں میں ایسے ممالک جو کبھی دشمن تھے، آج سب سے بڑے تجارتی ساتھی بن چکے ہیں, اس کی روشن مثال یورپ ہے۔پاکستان کے لیے وقت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کو جارحیت کی بجائے استحکام کے لیے استعمال کرے۔ فوجی طاقت کا سب سے بڑا مقصد جنگ جیتنا نہیں بلکہ جنگ کو روکنا ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو اپنی سفارتکاری، معیشت، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں سرمایہ کاری بڑھانی ہوگی۔ طاقتور قومیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے عوام کو خوشحال بنائیں، اپنے نوجوانوں کو روزگار دیں، اور دنیا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کریں۔پاکستان کو اپنی طاقت کا دفاع ضرور کرنا چاہیے مگر اس کا اظہار صرف اسی وقت کرنا چاہیے جب کوئی دوسرا راستہ باقی نہ رہے۔ اصل بہادری یہی ہے کہ قوم اپنے غصے اور طاقت دونوں پر قابو رکھے۔ اگر پاکستان نے یہ حکمت اپنالی تو نہ صرف خطے میں امن ممکن ہوگا بلکہ اس کی معیشت بھی ایک نئی بلندی پر پہنچے گی۔
٭٭٭















