پاکستان میں رتن ٹاٹا کیوں نہیں؟

0
2
کامل احمر

دنیا میں ہر ملک میں کچھ ایسے انسان پیدا ہوتے ہیں جو اپنے کام کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے زندہ رہتے ہیں۔ ہر شعبے میں ایسا ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔ پچھلے ہفتے9اکتوبر کو ہندوستان کے مشہور اور کامیاب ترین صفت کار دنیا سے چلے گئے اور لوگ بے حد اُداس ہوگئے وہ ہندوستان کے برٹش زمانے کے تھے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے تو ہم نے دو نام سنے تھے۔ ٹاٹا اور برلا ٹاٹابرلا سے آگے تھے اور اتنے مشہور تھے کہ جب ہم امرتسر سے دہلی گئے تو انکے نام سے ٹاٹا ایکسپریس چلتی تھی جب رتن ٹاٹا چھوٹے تھے۔ وہ نیویارک میں بھی رہے تھے ریور ڈیل کے اسکول میں ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی تھی اسکے بعد کارنیل یونیورسٹی سے1960میں گریجویشن کیا تھا اور ٹاٹا گروپ کو1991میں چیئرمین بنے تھے۔ انکا یہ سفر33سال کا تھا اور اس دوران ٹاٹا گروپ ہندوستان کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی خود کو منوا چکا تھا۔
امریکہ میں رہ کر ٹاٹا جی نے بہت کچھ سیکھا تھا لیکن چار بار عشق کی نوبت شادی تک نہیں پہنچی، بتاتے چلیں کہ انڈیا کی ایکٹریس سمی اگروال سے ان کے عشق کے چرچے رہے ،شادی نہ ہونے کی وجہ معلوم نہ ہوسکی کہ وہ خود پارسی مذہب سے تھے اور سمی اگروال سکھ مذہب سے تھیں۔ انہوں نے راج کپور کی فرمائش پر فلم میرا نام جوکر میں ایک نہایت بولڈ رول ادا کیا تھا جو اخبارات میں تنقید کی نظر ہوا تھا لیکن سمی اگروال پڑھی لکھی اور نہایت جازب نظر خوبصورت اور رکھ دکھائو کی مالک رہی ہیں کئی فلموں میں کام کیا اور اب اپنا ٹاک شو کرتی ہیں جس کی وہ میزبان ہیں رتن ٹاٹا کا افسوس انہیں یقیناً تھا انہوں نے کہا ”وہ کہتے ہیں تم چلے گئے یہ بے حد مشکل ہے تمہارے چلے جانے کا دکھ فیرویل مائی فرینڈ” اس سے ظاہر ہوتا ہے ان دونوں کا عشق مامیانہ نہ تھا۔ ہم پاکستانی ہوتے ہوئے رتن ٹاٹا کے متعلق پڑھتے رہتے تھے، رتن ٹاٹا کی چھاپ ہندوستان کے کونے کونے میں تھی اور ان کے عزائم دنیا کے کسی بھی بڑے صفت کار سے کہیں زیادہ تھے۔ دوسروں ضرورت اور ان کی مانگ پوری کرنے میں بھی رتن کا کا سب سے آگے تھے۔ امداد کی مد میں رتن ٹاٹا نے102بلین ڈالر دیئے تھے۔ جب کہ بل گیٹس، ٨٠بلین اور وارن بفٹ32بلین کے بعد سو روس32بلین تک رہے تھے۔ پچھلے دنوں انہوں نے اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر کا اظہار کیا تھا کہا تھا ”مجھے اپنے ملک سے محبت ہے اور میں فخر محسوس کرتا ہوں ہندوستان ہونے پر” جب انکا بمبئی میں تاج پلیس ہوٹل دہشت گردی کا شکار ہوا تھا تو انکا بیان آیا تھا ”وہ میری تمام جائیداد کو آگ لگا دیں لیکن یہ یقین کر لو کہ کوئی بھی وہاں سے بچ کر نہیں جائیگا۔ رتن ٹاٹا نے1961میں ٹاٹا گروپ کو سنبھالا تھا چیئرمین کی حیثیت سے اور مرنے سے پہلے100ارب ڈالر تک پہنچا دیا تھا۔ انہوں نے دنیا بھر میں مشہور چھوٹی بڑی کمپنیوں کو ٹاٹا کا نام دیا تھا۔2000میں برطانیہ کی لیٹن کے بعد ٹیٹلی چائے کو450ملین میں خرید کر لپٹن سے آگے کر دیا تھا آج بھیTetpeyدنیا بھر میں مشہور ہے۔ آج کی تاریخ میں وہ165بلین ڈالر کے مالک تھے۔ وصیت میں یہ کس کی ملکیت بنیگے کہنا مشکل ہے۔اندرا گاندھی کے زمانے میں جب باہر کی چیزوں پر پابندی لگ گئی تھی تب بھی ٹاٹا گروپ ترقی کے مراحل طے کر رہا تھا۔ انڈین ایرلائن جو1932میں ٹاٹا ایئر لائنر سے شروع کی گئی تھی کچھ عرصہ کے لئے قومیت کی ملکیت بنی تھی لیکن2022میں ایئرلائن ٹاٹاگروپ کے سپرد کر دی گئی اور جب سے اب تک ایک گرتی ہوئی ایئرلائن ترقی کر رہی ہے ٹاٹا گروپ نے برطانیہ کی گرتی ہوئی موٹر کمپنی کو بھی اپنی تحویل میں لیا ہے۔ جوJAGUARکے نام سے جانی جاتی ہے اور آج کی تاریخ میں ٹاٹا گروپ کے ملازمین کی تعداد10,28000، دس لاکھ28ہزار ہے۔ جو کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ کمپنی سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد پاکستانی ہونے کے ناطے صرف یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا کوئی صفت کار پیدا ہوا۔ جو اب ہے ہوا یہ ایوب خان کے دور کی بات ہے جب ٹیکسٹائل کے شعبہ میں دائود اور سہگل نے اپنام نام بنایا ایسا کہ سوٹنگ کے لئے لوگ اپنے لئے ان ہی ٹیکسٹائل کا کپڑا خریدتھے تھے لیکن دھیرے دھیرے ہر کمپنی اور ہر ادارہ درہم برہم ہوتا رہا۔ آج ہمارا ملک قرضوں پر چل رہا ہے اور جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے میں دوسری بات نہیں کہ ہمارے محب وطن جرنیلوں نے پورا نظام تباہ وبرباد کردیا ہر صفت کو ہتھیا کر عوام کو ڈرایا دھمکایا اور اب اس کا کوئیENDنہیں ہے۔ دوسرے اس ملک کو مذہب کے دعویداروں نے اسلام سے منحرف کردیا۔ جمہوریت کا جنازہ نکالنے میں بھی آرمی ہی ہے۔ دہشت گردی بھی ان ہی کے دم سے ہے۔ پوری قوم صبح وشام انہیں گالیاں دے رہی ہے لیکن انہیں مال بنانے سے فرصت نہیں۔
ان کے مقابلے میں سیاست دان ہیں۔ جن سے یہ ڈر چکے ہیں اور گالیاں کھا کر سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ حصہ بانٹ کر چکے ہیں۔ یہ لوگ ایک ملک نہیں چلا سکتے اگر یہ اتنی وردی اور حدود میں رہتے تو یہاں بھی رتن ٹاٹا جیسے پیدا ہوتے۔ ہم نے ایسے صفت کار پیدا کئے جو بجلی سپلائی کئے بغیر لوگوں کی جیب سے اپنا منافع بناتے ہیں۔ اور وہ سب دوسرے ملکوں میں عیاشی کر رہے ہیں ایک نام منشاء کا ہے اور حکومت میں شامل نوازشریف اپنا پیسہ باہر لے جاچکے ہیں جو انکا پیسہ نہیں ہے بلکہIMFکے قرضے میں سے نکالا ہوا ہے۔ انہیں کوئی نہیں روک سکتا اور یہ جب تک زندہ ہیں یہ ہی کچھ کرتے رہیں گے۔ عمران خان کے بعد حکومت ان ہی لیٹروں کے پاس رہی ہے اور من مانی کر رہے ہیں ان میں حکومت سنبھالی نہیں جارہی دفعہ144جگہ جگہ لگاتے رہتے ہیں لیکن کوئی ایک کام ایسا نہیں کرتے کہ ملک اور عوام کو فائدہ پہنچے۔
اگر انڈیا میں بھی فوجی حکومت ہوتی تو ٹاٹا دوسرے ملک چلے گے ہوتے۔ انبانی گم ہوگیا ہوتا اور برلا کا نام نہ ہوتا۔ یہ ایک عذاب ہے جو جرنیل اور ڈاکوئوں کی شکل میں عوام پر لادا گیا ہے پاکستان پر لکھنے کو ہمارا دل نہیں چاہتا۔ لکھیں تو کیا لکھیں۔ کس بات کا فخر کریں کس لئے فوج کو خراج عقیدت پیش کریں جس کے جرنیل بے ایمان اور کفار سے بھی زیادہ موذی ہیں انہوں نے فوج کو بدنام کیا ہے افسوس فوج کے اندر کوئی بھی ایسا نہیں جو کھڑا ہوجائے۔ وقت تیزی سے بڑھ رہا ہے پڑوسی ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے کہ وہ امریکہ کی ضرورت بن گیا ہے اور یہ غلام بن گئے ہیں ان کا شمار نہ تین میں ہے اور نہ تیرہ میں اور ہمارے پاس الفاظ ختم ہیں۔ دعا کرتے ہیں ان موذی لوگوں کو اللہ لگام دے۔ سوشل میڈیا سندھ اور پنجاب کی حکومت کے فتنوں سے بھرا ہوا ہے۔ ظالم سے ظالم بھی مرنے سے پہلے توبہ کرتا ہے لیکن یہ سب عمران خان کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور کہتے ہیں عمران اسرائیل کا بندہ ہے ان کی سوچ پر تالے پڑ گئے ہیں اور شعور بھی چھین لیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here