ترانہ پاکستان کے خالق حفیظ جالندھری کا مصرع ہے کشورحسین شاد باد- میں پاکستان سے بے پناہ محبت رکھنے والی شاعرہ ڈاکٹر شاہینہ کشور صاحبہ کو شاد باد کہتے ہوئے انہیں ملک کشورِ شاعری کا خطاب دیتا ہوں۔ خواجہ حیدر علی آتشِ نے کہا تھا!
نہ گورِ سکندر نہ ہے قصرِ دارا
مِٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
آج سلاطینِ جہاں کی قبروں کے نام و نشاں تک باقی نہیں لیکن بقولِ مرزا غالب!
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریہ نہ ہوا
یہ بوریہ نشیں ہی ہیں جو تختِ شاعری پر بیٹھے ہیں – فخرِ انگلستان ولیئم شیکسپئیر ہے تو کوئی فخرِ ایران حافظ شیرازی ہے جس نے کہا تھا!
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جرید عالم دوامِ ما
تختِ کشورِ شاعری کی زیب و زینت شاہینہ کشور نے اپنی دلنشین و دلسوز شاعری کی بدولت جہانِ ادب میں دوام حاصل کر لیا ہے ۔ ان کی شاعری کا مہرِ درخشاں ہمیشہ تابندہ رہے گا۔ اِن کی دو کتابیں محبت آخری دکھ ہیاور آسمان مٹی کاشائع ہو چکی ہیں۔ اِن کی تیسری کتاب خوابوں کے دریچے سے زیرِ طباعت ہے۔ڈاکٹر شاہینہ کشور صاحبہ کا تعلق لاہور سے ہے اور آجکل کینیڈا میں مقیم ہیں، لاہور کی مٹی میں علامہ اقبال، فیض احمد فیض، حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، اور حبیب جالب جیسے زعمائے ادب دفن ہیں- آپ آج بھی لاہور کی محبت میں مبتلا ہیں اور خاکِ لاہور کو سرم عقیدت گردانتی ہیں۔ کہتی ہیں!
جہاں محفوظ ہیں اب تک پرانی خوشنما یادیں
چلو لاہور کا اپنا وہی گھر دیکھ آتے ہیں
آپ کو اردو، فارسی اور انگریزی پر عبور حاصل ہے۔ آپ متعدد عالمی ادبی و علمی تنظیموں کی سرپرست اور رکن ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رجسٹرڈ انسانی حقوق کی تنظیم انٹر نیشنل ہیومن رائٹس ابزرور( International Human RightsObserver ) کی وائس پریزیڈنٹ ہیں۔ رائیل امیریکن یونیورسٹی )Royal American University) کی ( Vice Chancellor )بھی ہیں۔
ڈاکٹر شاہینہ کشور صاحبہ کی شاعری اور شخصیت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آپ کی شخصیت میں جمال بھی ہے، کمال بھی ہے اور جلال بھی ہے۔ اِن کے احساس میں شدت ، جذبات میں حدت اور افکار میں جدت ہے۔ اسلوبِ شعر میں قدیم اساتذہ کا رنگ اور عہدِ جدید کا آہنگ ہے۔ ہر شعر میر تقی میر کا نشتر اور مرزا غالب کا تیرِ نیم کش ہے۔ آپ خوش ذوق، خوش رو اور خوش اخلاق ہیں۔ ادبی محافل میں مانندِ ماہِ منیر اور شاعر شہیر ہیں۔ نہایت باوقار اور سلیقہ شعار ہیں۔ ہر دل عزیز بھی ہیں اور خاتونِ تمدن و تہذیب بھی ہیں ۔ دل پر از غم ہے لیکن چہرہ متبسم ہے۔ سرشکِ خونیں شعلہ بھی ہے اور شبنم بھی ہے۔ادبی مصروفیات کے علاوہ سماجی خدمات میں بھی طاق ہیں۔ مارگزیدہ ارواح کے لیے تریاق ہیں۔ گویا آپ گلدست صد رنگ ہیں۔ ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ آپ ولیئم شیکپئر ، مولانا رومی اور علامہ اقبال کی شاعری سے بہت متاثر ہیں۔ آپ کو اِس بات کا احساس ہے کہ بقولِ علامہ اقبال اے بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد۔ اِسی لیے اعلان کرتی ہیں
محبت کے حسیں جذبے نمایاں ہوں گے غزلوں سے
زمانہ گنگنائے گا ترے اشعار شاہینہ
آپ کی شاعری رومانوی اور انقلابی ہے۔ دردِ ہجراں کی داستان بھی ہے اور غمِ انساں کا نوحہ بھی ہے۔ چند رومانوی اشعار ملاحظہ کیجئے
عشق میں جس کے جل کے فنا ہو گئی
وہ یہ کہتا ہے میں بے وفا ہو گئی
ہماری شاعرانہ ریت یہ رہی ہے کہ شاعر کو محبوبہ سے بے وفائی کی شکایت رہی ہے مگر اب عہدِ نو میں محبت یکطرفہ ٹریفک نہیں رہی بلکہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی کا ببانگِ دہل اعلان و اعتراف ہے جو آزادء نسواں اور حقوقِ نسواں کا ایک فطری پہلو ہے۔ اِسی غزل کے ایک شعر میں کہتی ہیں
میں نے اپنے لئے کچھ بھی مانگا نہیں
اس کے حق میں سراپا دعا ہو گئی
اپنے لیے تو ہر کوئی دعا مانگتا ہے لیکن مخلوقِ خدا یا دوسروں کے لیے دعا مانگنا شرفِ انسانیت ہے۔ یہ مقام ہر کس و ناکس کو میسر نہیں۔ انسانیت کے پاسدار اور غمخوار ایسی روحانی اور وجدانی کیفیت کے امین ہوتے ہیں۔ استاد فوق لدھیانوی کا شعر ہے
یہ حسنِ مجسم بھی اگر محوِ دعا ہے
اے میرے خدا اور یہ کیا مانگ رہا ہے۔
یہاں شاعرہ حسنِ مجسم ہوتے ہوئے بھی اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے دست بہ دعا ہیں۔ دستِ شاعرہ کشکول نہیں بلکہ وہ کاس دل ہے جس کی طرف میر تقی میر نے اشارہ کیا تھا
فقیرانہ آے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
آپ کی غزلیات میں انقلابی اشعار بکثرت ملتے ہیں جو آپ کی مظلوم و مجبور طبقاتِ معاشرہ کے ساتھ دلی ہمدردی کے عکاس ہیں۔ایک غزل کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے
کیا یہی میرے خوابوں کی تعبیر ہے
لب پہ آہیں ہیں، پیروں میں زنجیر ہے
کیوں سزا دی گئی یہ پتہ تو چلے
کون سا جرم ہے کیسی تقصیر ہے
اِس شعر میں پوری تاریخِ انسانیت بیان کر دی گئی ہے۔ بادشاہوں اور آمروں نے جس کا چاہا گلہ کاٹ دیا۔جہاں عدالتیں بِکتی ہوں وہاں نظامِ عدل قائم نہیں کیا جا سکتا۔ توہینِ عدالت کی تو سزا ہے لیکن توئینِ عدل کی کوئی سزا نہیں۔ اِسی لئے نظام زور و زر اور طریقِ جبر و جور نے انسانوں کو تخت مشقِ ستم بنا رکھا ہے۔
آپ کی نظمیں رومانوی بھی ہیں اور غمِ دوراں اور غمِ انساں کی آئینہ دار بھی ہیں۔ میری دنیا دردِ ہجراں کی داستانِ دلدوز ہے۔ کوہ مری میں ہونے والے فاجع جانکاہ پر اپ کی ایک غزل نما نظم بڑی دلخراش ہے۔نوح روح فرساہے۔فغانِ دلِ غم زدہ ہے۔کہتی ہیں
کتنے آرام سے تم جدا ہو گئے
برف کی وادیوں میں کہاں سو گئے
تم نے وعدہ کیا تھا کہ لوٹو گے تم
میری دنیا سے جا کر کہاں کھو گئے
اِن اشعار سے شاعرہ کے دلِ اندوہگیں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭