عالمی رہنمائوں
کے اکٹھ پر ہنگامہ!!!
پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی میں کبھی بھی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے ، ایک ایسے موقع پر جب دنیا بھر کے رہنما پاکستان میں عالمی شنگھائی تعاون اجلاس میں شریک ہیں تو عین اُسی وقت پی ٹی آئی کی احتجاج پالیسی اپنے عروج پر ہے لیکن عالمی ایونٹ کی وجہ سے اس احتجاج کو فی الحال موخر کر دیا گیا ہے ، حکومت سمیت دیگر سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کو سمجھانے میں مصروف تھیں جوکہ اپنے مقصد میں کامیاب رہیں کہ اس اہم موقع پر ایسا نہیں کرنا چاہئے لیکن بات صرف پی ٹی آئی تک محدود نہیں ، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی حالات کو معمول پر لانے کیلئے راضی نہیں ہے، اگر اسٹیبلشمنٹ چاہے تو عمران خان کو رہا کرنے کے بعد ملک کی سیاسی فضا میں ٹہرائو لایا جا سکتا ہے لیکن فی الحال ایسا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ہے ، حالات کا تقاضا یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت عمران خان کو سیاست کیلئے کھیلا میدان دیں جیسا کہ دیگر جماعتوں کو میسر ہے تاکہ ملک میں انارکی کی فضا کم ہو سکے، شہباز شریف کو چاہئے کہ ملک میں امن کیلئے اگر اڈیالہ جیل جا کر بھی عمران خان سے ملاقات کرنی پڑے تو کی جائے اس سے ان کے قد میں مزید اضافہ ہوگا، دوسری طرف پی ٹی آئی اور عمران خان کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا ، اکڑ بازی اور تکبر سے معاملات کبھی حل نہیں ہوتے ہیں ، ہمیشہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہی راستے نکلتے ہیں ، پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ، ذوالفقار علی بھٹو کی ہی مثال لے لیں جن میں تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اور ان کا خیال تھا کہ ان کی کرسی ان سے زیادہ مضبوط ہے لیکن پھر ان کے ساتھ جو ہوا وہ آج تک تاریخ میں ثبت ہو چکا ہے۔بھارت کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری، چین کے ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے سی پیک منصوبے میں سست روی، اسلام آباد کو درپیش عدم سیاسی استحکام اور پاکستان کے لیے امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے کے سفارتی چیلنج نے پاکستان کے لیے خطے میں تعاون کے مواقع اور تعلقات میں بہتری کے چیلنجز دونوں کو ایک اکٹھا کردیا ہے۔ حکومت سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کو حل نہیں کر سکی ہے اور نہ ہی اس نے کوئی بڑے اقتصادی فیصلے کیے ہیں جو ملک کے مستقبل کے لیے اُمیدافزا ہوں۔ایس سی او سمٹ کا باقاعدہ آغاز 16 اکتوبر کو جناح کنونشن سینٹر میں ہوگا، جناح کنونشن سینٹر آمد پر وزیراعظم شہباز شریف تمام غیرملکی سربراہان اور وفود کا خیر مقدم کریں گے۔کانفرنس کا باقاعدہ آغاز مہمانوں کی آمد، استقبال اور گروپ فوٹوز کے بعد ہوگا، وزیراعظم شہباز شریف ایس سی او کانفرنس سے افتتاحی خطاب کریں گے جس کے بعد غیر ملکی وفود کے سربراہان کانفرنس سے خطاب کریں گے۔غیر ملکی رہنماؤں کے خطاب کے بعد دستاویزات پر دستخط کیے جائیں گے، وزیراعظم شہباز شریف کے اختتامی کلمات سے کانفرنس کے ایجنڈا آئٹمز مکمل ہوں گے۔شنگھائی تعاون تنظیم (ایس ای او) علاقائی، سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تنظیم ہے، اس تنظیم کو ابتدا میں چین اور روس نے قائم کیا تھا، چین، روس، قازقستان، کرغزستان، ازبکستان اور تاجکستان ایس ای او کے ممبر ملک تھے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل ارکان کی تعداد 10ہے، 3 ممالک مبصر اور 14 ممالک ڈائیلاگ پارٹنرز کی حیثیت سے تنظیم سے منسلک ہیں۔پاکستان اور بھارت نے جون 2017 ایران نے 2023 مستقل ممبرز کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی جب کہ بیلاروس نے 2024 میں تنظیم کے مستقل ممبرز کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ایس سی او دنیا کی 40 فیصد آبادی اور جی ڈی پی کا تقریباً 32 فیصد حصہ رکھتی ہے، سربراہان مملکت کی کونسل شنگھائی تعاون تنظیم میں سب سے بڑا فیصلہ سازی کا حامل فورم ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس رکن ممالک کے دار الحکومت یاکسی ایک شہر میں ہر سال منعقد ہوتا ہے۔ایس سی او تنظیم کے اہداف میں دوستانہ ہمسائیگی، تجارت، سائنس وٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، خطے میں امن و امان اور سلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا شامل ہے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جمعے کو اعلان کیا ہے کہ اگر جیل میں بند عمران خان کو ان کی قانونی ٹیم اور معالج سے ملنے نہ دیا گیا تو 15 اکتوبر کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں احتجاج کیا جائے گا۔احتجاج کی کال ایک ایسے وقت پر دی گئی ہے جب 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس شیڈول ہے اور اس حوالے سے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
٭٭٭