پاکستان میں سیاسی احتجاجی مظاہرے ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں اور مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی وجوہات کی بنا پر ہوتے آئے ہیں تاہم، موجودہ حالات میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا پاکستان مزید سیاسی احتجاجی مظاہروں کا متحمل ہوسکتا ہے؟ پاکستان کی معیشت حالیہ برسوں میں شدید دبائو کا شکار ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، قرضوں کا بوجھ، اور غیر مستحکم معاشی پالیسیاں ملک کو ایک بحرانی صورتحال کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار، روپے کی قدر میں مسلسل کمی، اور افراطِ زر جیسے مسائل عوام کو مزید مشکلات میں ڈال رہے ہیں۔ ایسے حالات میں احتجاجی مظاہرے، جو اکثر معاشی عدم استحکام کی بنیاد پر ہوتے ہیں، ملک کی معیشت کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹیں آتی ہیں، سرمایہ کاری کا ماحول خراب ہوتا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار عدم اعتماد کا شکار ہوجاتے ہیں۔پاکستان کی سیاسی صورتحال بھی خاصی غیر یقینی کا شکار ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین تنازعات، غیر واضح پالیسی سازی، اور مستقل سیاسی تبدیلیاں ایک غیر مستحکم ماحول کو جنم دیتی ہیں۔ ہر احتجاجی مظاہرہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مزید اختلافات کو بڑھاتا ہے، جس سے سیاسی استحکام کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ سیاسی احتجاجات، حکومت کی توجہ عوامی مسائل سے ہٹا کر اپنے دفاع پر مرکوز کر دیتے ہیں۔ ایسے میں سیاسی احتجاجات ملک کی سیاسی ترقی میں مزید رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔پاکستان میں سماجی تقسیم بھی احتجاجی مظاہروں کا ایک اہم پہلو ہے۔ طبقاتی تقسیم، فرقہ واریت، اور نسلی بنیادوں پر کشیدگی ایسے مسائل ہیں جو کسی بھی سیاسی مظاہرے کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے اکثر ایسے تقسیم شدہ گروہوں کو استعمال کرتی ہیں، جس سے مظاہروں کے دوران فرقہ وارانہ اور نسلی تشدد کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اس قسم کی سماجی تقسیم نہ صرف سیاسی احتجاجات کو خطرناک بنا سکتی ہے، بلکہ ملک کے اتحاد اور امن کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔آج کل سوشل میڈیا نے سیاسی احتجاجات میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ عوامی رائے تیزی سے بنتی اور بدلتی ہے، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سیاسی تحریکیں زور پکڑ لیتی ہیں۔ تاہم، یہ پلیٹ فارمز بعض اوقات غلط معلومات پھیلانے اور تنازعات کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پر کسی بھی تحریک کے اچانک وائرل ہونے سے حکومت کے لیے ان مظاہروں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔پاکستان موجودہ حالات میں سیاسی احتجاجی مظاہروں کا متحمل ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ معیشت پہلے ہی شدید بحران میں ہے، اور مزید احتجاجات سے اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔ سیاسی احتجاجات حکومت کی توجہ عوامی فلاح و بہبود کی بجائے اپنے دفاع پر مرکوز کر دیتے ہیں، جس سے عوامی مسائل حل کرنے میں رکاوٹ آتی ہے۔ سماجی تقسیم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دبا کے باعث امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ عوامی رائے اور سوشل میڈیا کی طاقت بھی کسی بھی احتجاجی تحریک کو غیر متوقع طور پر وسیع پیمانے پر پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے۔پاکستان کو اس وقت سیاسی استحکام، معاشی ترقی، اور سماجی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں سیاسی احتجاجی مظاہروں کا تسلسل ملک کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ملک کو مزید بحرانوں سے بچایا جا سکے۔
٭٭٭