لوگ ٹوٹ جاتے ہیں اک برج بنانے میں(سفرِ عربستان)

0
164

سولہ دسمبر کی تاریخ کے ساتھ دو تاریخی سانحے وابستہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ اور APS کا دھماکہ۔ اس سال پاکستان میں پچھلے دس دن گزارنے کے بعد، آج سولہ دسمبر کے دن اندازہ ہوا کہ ان دونوں سانحوں کا چرچا اب بہت کم رہ گیا ہے۔ مشرقی پاکستان کے بارے میں تو لاہور کی کئی محفلوں میں اکثریت کے رائے یہ تھی ہمارے بنگالی بھائیوں سے کافی زیادتیاں ہوئیں اور انہوں نے متحدہ پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے بہتر فیصلہ کیا تھا۔ APS کے واقعے پر لوگ افسردہ تو تھے مگر زیادہ تر تبصرے قابلِ تحریر نہیں ہیں۔ اگلے دس دن عربستان میں گزارنے کیلئے، بمعِ اہل و عیال آج جب ہم لاہور ائیرپورٹ پہنچے تو ماشااللہ کافی گہما گہمی دیکھنے کو ملی۔ ہماری دبئی کی فلائیٹ بھی کچھ منٹ لیٹ تھی، اس لئے عام لوگوں سے گپ شپ کا زیادہ وقت ملا۔ ائیرپورٹ پر انتظامات اچھے تھے۔ کسٹمز، چیک ان، امیگریشن، لاجنگ اور بورڈنگ کے مراحل خوش اسلوبی سے طے ہو گئے تو اپنے اس مختلف النوع سفر کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ مختلف اس لئے کہ اکثر میرا سفر ریلیف اور ڈیویلپمنٹ کے تعلق سے ہوتا ہے یا پھر عزیز و اقارب سے ملاقاتوں کیلئے۔ عربستان کا یہ سفر بنیادی طور ایک قریبی دوست کے بیٹے کی شادی میں شرکت کرنے کیلئے ہے، جس کے ساتھ ہم نے کچھ مزید لوازمات بھی شامل کر لئے ہیں۔ میرا اس سے قبل بھی کئی دفعہ دبئی آنے کا اتفاق ہوا۔ ہر دفعہ بلند و بالا عمارتوں کی تعداد میں اضافہ ہی نظر آیا۔ یہاں کا انفراسٹرکچر چونکہ امریکہ کی ہی ایک ایکسٹینشن ہے، اس لئے کبھی اجنبیت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ وہی انگریزی زبان میں سائن بورڈز، روڈز پر ڈرائیونگ کا امریکی طریقہ، شاپنگ مالز میں موجود مغربی برانڈز، امریکی ہوٹلز اور فاسٹ فوڈ کی فرنچائیزز، غرض ہر چیز میں Feel Home سی کیفیت لگتی تھی اور اب تو اسرائیل کے ساتھ انکی دوستی نے رہی سہی کثر بھی پوری کردی ہے۔ بشیر بدر نے کیا خوب کہا ہے۔
فاختہ کی مجبوری یہ بھی کہہ نہیں سکتی
کون سانپ رکھتا ہے اس کے آشیانے میں
ہمارا طیارہ دبئی کے قریب پہنچا تو برجِ خلیفہ اور اس کے قرب و جوار کی سینکڑوں بلند قامت عمارتوں نے، ان ہزاروں غریب و مجبور مزدوروں کی یاد تازہ کردی جن کے خون و پسینے کے خوشبوئیں، آج بھی حساس لوگوں کی نیندیں اڑا دیتی ہیں۔ برِ صغیر پاک و ہند سے خاص طور پر اور دیگر ترقی پذیر ممالک سے عام طور پر لاکھوں ایسے مزدوروں کو عربستان کے ریگستانوں میں لایا گیا، جن کے بنیادی حقوق کو پامال کرتے ہوئے، غلاموں کی طرح رکھا گیا۔ انکی غربت اور مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، بہت کم اجرت دی گئی۔ کئی کئی سال ان عرب ممالک میں رہائش کے باوجود ان کو شہریت کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا۔ انتہائی سخت موسم میں ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا رہا۔ جیسے ہی انکی جوانی ڈھلی، انہیں واپس اپنے ملک جانے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ یہ بلند ٹاورز مکمل ہوتے ہی، ان غریبوں کیلئے بند ہوجاتے تھے کیونکہ وہ معمار، کام مکمل کرنے کے بعد سیکورٹی رسک ہو جاتے تھے۔ آج کل مشینوں کا استعمال زیادہ ہونے کی وجہ سے بندہ مزدور کے اوقات کچھ بہتر تو ہوئے ہیں لیکن پھر بھی، عربستان کے ان ریگستانوں میں غریب اور مجبور انسانیت کی حالت بڑی ناگفتہ بہ ہے۔ ائیرپورٹ کے سارے مراحل طے کرنے کے بعد جب باہر نکلے تو استقبال کیلئے میرے برادرِ نسبتی منتظر تھے۔ ان کی گاڑی ہمارے سامان کیلئے ناکافی تھی، اس لئے ہم نے ایک رینٹل کار کا بھی انتظام کیا ہوا تھا۔ اس کے حصول اور پیپر ورک مکمل کرنے میں کچھ دیر تو لگ گئی لیکن اس کے بعدبڑے آرام کے ساتھ اپنے عارضی ٹھکانے پر پہنچ گئے۔ یہ دس دن کیلئے رینٹ کیا ہوا ٹھکانہ بھی آرام دہ نکلا۔ تینتالیسویں منزل پر واقع اس اپارٹمنٹ تک پہنچتے پہنچتے کان ایک مرتبہ پھر بند ہونے لگے جو ابھی جہاز کے سفر کے بعد مشکل ہی سے کھلے تھے۔ بہرحال مجموعی طور پر ہمارے دس دن کے سفرِ عربستان کا آغاز تو آج کافی اچھا رہا۔ اب دیکھتے ہیں کہ آئندہ کیا ہوتا ہے۔ مشہور شاعر بشیر بدر صاحب نے یہ مصرعہ کہ لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں تو ان لوگوں کیلئے ارشاد فرمایا تھا کہ جو اپنے گھر کی تعمیر میں ساری زندگی لگا دیتے ہیں۔ میں آج اسی مصرعہ کو ان لوگوں کیلئے استعمال کرنا چاہ رہا ہوں جو شیخوں کے برج اور محل بناتے بناتے اپنا سب کچھ دا پر لگا دیتے ہیں۔ بہرحال بشیر بدر صاحب کی اسی غزل کے ایک اور شعر پر بات ختم کرتے ہیں کہ
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here