اشرف الاانبیا خاتم النبین !!!

0
5

وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی للہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ!
میری بیویوں کو جمع کرو”تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟”سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلو والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔ اور فرماتی ہیں: “میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلو والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔” مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم
سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ “لا لہ لا اللہ، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔” اسی اثنا میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔ نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا: یہ کیسی آوازیں ہیں؟
عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔ پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلو و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔ فرمایا: اے لوگو! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟” سب نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول” ارشاد فرمایا:
اے لوگو۔۔! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض(کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں، اے لوگو۔۔۔!
مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس(کے معاملے)میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جیسا کہ تم سے پہلے پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیاتمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔” پھر مزید ارشاد فرمایا: اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سیڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔”
یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔)
پھر فرمایا: اے لوگو۔۔۔!عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔مزید فرمایا اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے” اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔ ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان…..”
روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔
صحاب کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا:
اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔”
آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:
اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔
اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ:
اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔”
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔
اسی اثنا میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔
فرماتی ہیں:
آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلو والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔”
ام الممنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں:
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتیتھے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! “قریب آجا۔۔۔”
پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! “قریب آ۔۔۔”
دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ
پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:
فاطمہ!میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔
جس پر میں رو دی۔۔۔۔”
جب انہوں نے مجھے بیتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے:
فاطمہ!میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔”
جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:
عائشہ!میرے قریب آجا۔۔۔”
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوج مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے:
مجھے وہ اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں اللہ کی، انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔)
صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔”
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:
یارسول اللہ! ملک الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔”
آپ علیہ الصلو والسلام نے فرمایا:
جبریل!اسے آنے دو۔۔۔”
ملک الموت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا:
السلام علیک یارسول اللہ! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئیبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا اللہ سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟”
فرمایا:
مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔”
ملک الموت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:
اے پاکیزہ روح۔۔۔!
اے محمد بن عبداللہ کی روح۔۔۔!
اللہ کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!
راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!”
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔
رسول اللہ کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول اللہ کا وصال ہوگیا۔۔۔!”
مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔
ادھر علی کرم اللہ وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔
ادھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔
اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے:
خبردار!جو کسی نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو اللہ تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔”
اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجر نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سین مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔
کہہ رہے تھے:
وآآآ خلیلاہ، وآآآ صفیاہ، وآآآ حبیباہ، وآآآ نبیاہ
ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا:
یا رسول اللہ! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔”
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا:
جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ اللہ تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔”
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔
عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روں۔۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟”
پھر کہنے لگیں:
یا بتاہ، جاب ربا دعاہ، یا بتاہ، جن الفردوس مواہ، یا بتاہ، ال جبریل ننعاہ.”
ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔)
اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here