مارگلہ ہلز کی سینکڑوں ایکڑ زمین پر پاک فوج کا ملکیتی دعویٰ خلاف آئین قرار

0
295

اسلام آباد (پاکستان نیوز) پاکستانی فوج کے فارمز ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے مونال انتظامیہ سے کیا گیا معاہدہ کرایہ داری اور اس کے تحت 2019 سے وصول کیا گیا کرایہ غیرقانونی قرار دیا گیا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستانی فوج کے ویٹینری اور فارمز ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک ایریا میں 8068 ایکڑ اراضی پر کیا گیا ملکیتی دعویٰ مسترد کر دیا ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر Eـ8 میں پاکستان نیوی کے زیر انتظام چلنے والے گالف کورس کی تعمیر کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق بدھ کے روز مارگلہ ہلز نیشنل پارک کیس کا 105 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ پاکستان بحریہ اور پاکستان آرمی نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر نافذ شدہ قوانین کی خلاف ورزی کی اور یہ قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے اور اشرافیہ کی گرفت کا ایک مثالی کیس تھا۔یاد رہے کہ عدالت نے اس کیس میں شارٹ آرڈر (مختصر فیصلہ) 11 جنوری 2022 کو جاری کیا تھا۔ عدالت نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی تباہی کے ذمہ داروں کے خلاف متعلقہ اداروں کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ وزارت دفاع کو نیوی گالف کورس کے معاملے میں انکوائری کرنے جبکہ سیکریٹری دفاع کو فرانزک آڈٹ کروا کے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگوانے اور رپورٹ عدالت میں جمع کروانے کا احکامات صادر کیے گئے ہیں۔عدالت نے پاکستان فوج کے ویٹینری اور فارمز ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے 2019 میں مونال ریسٹورنٹ کے ساتھ کیا گیا لیز معاہدہ بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی فارمز ڈائریکٹوریٹ کے پاس مونال انتظامیہ کے ساتھ اس نوعیت کا معاہدہ کرایہ داری کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا۔ عدالت نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت فارمز ڈائریکٹوریٹ نے مونال سے جگہ کا جو کرایہ حاصل وہ بھی غیرقانونی تھا۔ عدالت نے سیکریٹری وزارت دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ فوج کے فارمز ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے مونال سے حاصل کیا گیا کرایہ واپس لے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ یہ تمام رقم قومی خزانے میں 60 دن کے اندر اندر جمع ہو۔کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی جی ایچ کیو یا فارمز ڈائریکٹوریٹ کس قانون کے تحت پراپرٹی کا مالک ہو سکتا ہے، یا کمرشل لیز ایگریمنٹ (معاہدہ کرایہ داری) کر سکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے تحت تینوں مسلح افواج وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں اور صدر پاکستان افواج کے سپریم کمانڈر ہیں، آرمڈ فورسز کو اپنے دائرہ کار سے باہر بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی کاروباری سرگرمی میں حصہ لینے کا اختیار نہیں اور نہ ہی پاکستانی فوج کسی سٹیٹ لینڈ (ریاست کی زمین) کی ملکیت کا بھی کوئی دعویٰ نہیں کر سکتی ہے۔تفصیلی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ مسلح افواج کا کام بیرونی جارحیت سے ملک کا دفاع اور طلب کیے جانے پر سول اداروں کی معاونت ہے، مسلح افواج دونوں ذمہ داریاں وفاقی حکومت کی اجازت سے سر انجام دے سکتی ہے، خود سے نہیں۔مارگلہ ہلز نیشنل پارک کیس کا 105 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ نے جاری کیا ہے، تفصیلی فیصلے میں عدالت نے ماحولیاتی اور قدرتی نظام کا تحفظ ریاست اور اداروں کی آئینی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے کہا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی تباہی شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اسلام آباد انوائرمینٹل کمیشن کی رپورٹ کو تفصیلی فیصلے کا حصہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست اور حکومتی عہدیداران کا فرض ہے کہ وہ مارگلہ ہلز کا تحفظ کریں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔عدالت نے سی ڈی اے اور وائلڈ لائف مینجمنٹ کو نیوی گالف کورس کا قبضہ لینے کا حکم دیا ہے۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ‘ستم ظریفی مارگلہ ہلز کے محفوظ نوٹیفائیڈ ایریا کی بے، حرمتی میں ریاستی اداروں کا ملوث ہونا ہے۔ پاک بحریہ اور پاک فوج نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر نافذ شدہ قوانین کی خلاف ورزی کی۔ریاست کا فرض ہے کہ وہ مارگلہ ہلز کو پہنچنے والے نقصان کے ازالہ کے لیے اقدامات کرے تاکہ اسے مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔عدالت نے مزید قرار دیا کہ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کوئی عام شہری نہیں، جن اداروں نے عوام کی خدمت کرنا تھی وہی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔عدالت نے مزید کہا کہ نیول گالف کورس کی تجاوزات پاکستان نیوی کی جانب سے بھی تسلیم شدہ ہیں، پاکستان نیوی نے جانتے بوجھتے مارگلہ ہلز کے تقدس کو پامال کیا اور قانون کی خلاف ورزی کی۔ ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ ‘سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر تجاوزات کا جواز پیش کرنے کی دلیل بے بنیاد ہے۔ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، کسی کو قانون کی خلاف ورزی کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا۔ نیوی حکام نے ریاستی زمین پر تجاوزات کر کے تادیبی کارروائی کے لیے خود کو ایکسپوز کیا۔’عدالت کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے اختیار کا غلط استعمال خلاف قانون اور بنیادی آئینی حقوق کی سنگین کی خلاف ورزی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here