قارئین وطن!اللہ اللہ تعصب کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کئی لوگ ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کے گلے میں تعصب کا تعویز لٹکا ہوتا ہے جو وہ صبح شام گھول کر پیتے ہیں میرے پچھلے ہفتہ کے کالم کا عنوان تھا دو چانسلر مضمون کا کرکس تھا ،عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا امیدوار اور دوسرا با جی میاں نواز شریف کریپٹو کرپشن نو لینڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے لئے امیدوار ان دو لوگوں کی ذہنی قابلئت اور مقبولیت کے اندازے کے مطابق اور ان کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے ایک کو آکسفورڈ کے لئے نامزد کیا اور دوسرے کو کرپشن یونیورسٹی کے لئے نامزد کیا، میری میسنجر لسٹ میں شامل قاری خالد پرویز صاحب نے کمینٹ لکھا کہ ایک قادیانی کی تعریف کی آپ نے قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دیں گے میں نے ان سے پوچھا کہ کس قادیانی کی بات کی ہے میرے کالم میں دو نام تھے ایک عمران خان کا اور دوسرا نواز شریف کا میں نے ان سے استفسار کیا کہ کس کی بات کر رہے ہیں آپ ان کا جواب تھا عمران کا میں ان کے باریش چہرے کو کبھی دیکھتا اور کبھی یہ سوچتا کہ اتنا تعصب اف اللہ جو شخص یو این او کے پلیٹ فارم پر اللہ اور اس کے رسول کی بات کرنے والے کو کیسے قادیانی کہ سکتا ہے کچھ دیر تو میں سوچتا رہا پھر مجھ سے نہ رہا گیا کہ ایک باریش شخص کیسے اللہ اور رسول کی بات کرنے والے کو قادیانی کہ سکتا ہے میں نے خالد پرویز صاحب کو کہا کہ آپ ایسی تعمت کیسے لگا سکتے ہیں مجھ کو تو آپ کے ایمان پر شک ہوتا ہے ان کا جواب تھا کہ آپ اپنے ایمان کی فکر کریں – میں تو اپنے ایمان کے بارے صرف یہ کہ سکتا ہوں !
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
میں خالد صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے سب سے پہلے فارن مسٹر سر ظفراللہ کو جانتے ہوئے کہ ان کا عقیدہ کیا تھا کہ وہ قادیانی تھے پھر بھی مملکت خداداد پاکستان کا فارن منسٹر لگایا ؟ میں حیران ہوں کہ خالد صاحب نے ایک ایسے شخص کے عقیدہ کے بارے میں اتنی چھوٹی بات کر دی کسی نے صحی کہا ہے کہ تعصب کی کوئی حد نہیں جو رسول اکرم کی دنیا کے بڑے بڑے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر بات کرتا ہے کس طرح تعمت لگا سکتا ہے اتنا بغض اور تعصب اللہ ہی سمجھے اس شخص کو -قارئین وطن! چلیں اپنی عدلیہ کی بات کرتے ہیں جس کا سب سے بڑا قاضی قاضی فائیز عیسی ہے جس نے ملک کی عدلیہ کو بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے عمران کے بغض میں اور نواز شریف کی خوشنودی کے لئے – جس زمانے میں جرنل کیانی ہماری فوج کا کمانڈر انچیف تھا میں نے اس کی رخصتی پر دو نفل ادا کئے کے اے میرے اللہ تیرا شکر ہے کہ یہ رخصت ہو گیا ہے اس کی وجہ سے ملک کی سلامتی دا پر لگی ہوء تھی اس کے دور میں جی ایچ کیو پر حملہ ہوا تھا اسی کے دور میں عثمہ بن لادن کا واقعہ ہوا کہ امریکن اس کو ہماری کاکول اکیڈمی کے قریب سے لے گئے کتنا بڑا فلا تھا ملک کی سکیورٹی کا پھر ہمارے نیول بیس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا شکر ہے کہ یہ جرنل کیانی جو ایک بلا تھا سے جان چھوٹ گئی آج اسی طرح میں اپنے رب باری سے دعا کرتا ہوں کہ جلد سے جلد قاضی فائیز عیسی بھی اپنے عہدے سے سبق دوش ہو جائے اور ستمبر کا مہینہ تیز گام کی رفتار سے اپنے اختتام کو پہنچے اور اس کی ریٹائیرمنٹ کا اکتوبر جلد سے جلد آجائے میں نے چار نوافل مانے ہوئے ہیں کہ اس سے پہلے کہ یہ شخس ہماری عدلیہ کو مکمل برباد کر دے یہ برباد ہو جائے آئے ہم سب مل کر اس کی رخصتی کے لئے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوں ویسے تو ہماری عدلیہ کی تاریخ اتنی سنہری نہیں ہے لیکن اس شخص نے تو عدلیہ کا خون کر دیا ہے اس نے فارم کی نام نہاد حکومت کے ساتھ مل کر عدلیہ کو روندنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی – اس شخص نے تو اپنے باپ قاضی عیسی کا نام ہی ڈبو دیا ہے جس کو قائد اعظم کے ساتھی ہونے پر بڑا مان تھا قاضی فائیز نے تو چوروں اور لٹیروں کی حکومت کے ساتھ مل کر عدلیہ کا مان مٹی میں ملا دیا ہے اللہ اس کی آخرت بھی اسی طرح برباد کر دے آمین –
قارئین وطن! ہمارے طاقت وروں کو سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستان کو ایک عوامی حکومت کی ضرورت ہے عوام & مئی کو بھی اپنا فیصلہ دے چکی ہے اور آج کا جلسہ بھی یہی کہ رہا ہے کہ اس وقت عمران خان کی قیادت ملک کو ہر قسم کے گرداب سینکال سکتی ہے ہمارے طاقت ور حلقوں کے اس بات کی سمجھ آجانی چاہئیایک اور بات ان کو سمجھ جانی چاہیے کہ پاکستان کا وجود ہی ہم سب کی بقا کا ضامن ہے پاکستان کے ساتھ ہی ہم ایک زندہ قوم ہیں – پاکستان زندہ باد پاکستان پائیندہ باد ،ہم سب کو اس بات کو سمجھنا چاہئے۔
٭٭٭