رسم و رواج!!!

0
108
رعنا کوثر
رعنا کوثر

آج کل تمام مسلمان رمضان کی آمد کے منتظر ہیں اور تیاریاں ہو رہی ہیں مگر رمضان سے پہلے کا یہ مہینہ یعنی شعبان بھی رحمتیں اور برکتیں لے کر آتا ہے۔اسی مہینے میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جسے ہم شب برات کہتے ہیں جو ابھی گزری ہے یہ دن اور رات ہمارے ملک پاکستان میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔دن میں لوگ روزہ رکھتے ہیں رات میں عبادت کرتے ہیں اور پھر مزے مزے کے حلوے بنائے جاتے ہیں۔یہ حلوہ صرف برصغیر ہندو پاکستان میں بنائے جاتے ہیں۔اور بہت ساری اقسام کے ہوتے ہیں ان میں سوجی کا حلوہ جو کے گیلے حلوے سے لے کر سوکھے حلوے تک بنائے جاتے ہیں۔پھر بیسن کا حلوہ یہ بھی جما ہوا حلوہ گیلا حلوہ اور مختلف قسم کے حلوے ہوتے ہیں۔پھر چنے کی دال کا حلوہ بھی بہت مقبول ہے۔یہ بھی تھال میں جمایا جاتا ہے اس کو نمک پارے کی شکل میں کاٹا جاتا ہے اور بڑے اہتمام سے لوگوں کے گھروں میں تقسیم کیا جاتا ہے کھیر بھی پکائی جاتی ہے اور یہ تمام میٹھے بنائے جاتے ہیں۔اور محلہ پڑوس رشتہ داروں میں تقسیم کیے جاتے ہیں ان پر فاتحہ کااہتمام بھی کیا جاتا ہے اور خواتین دن بھر حلوے بنانے میں مشغول رہتی ہیں۔شام کو مرد حضرت اپنے رشتہ داروں کے ہاں یہ میٹھا لے کر چلے جاتے ہیں۔اور بچے محلہ میں یہ میٹھا تقسیم کرتے ہیں پھر شام کو چراغاں ہوتا ہے اور پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں۔یوں رات کو مسجدوں میں جماعت اور نماز کا اہتمام ہوتا ہے۔شب برات کی فضلیت بتائی جاتی ہے اور روزہ بھی رکھا جاتا ہے۔یوں رمضان سے چند دن پہلے آنے والا یہ مذہبی تہوار اختتام کو پہنچتا ہے۔ہم اپنے بچپن سے یہی سب دیکھتے آرہے ہیں اور سب زیادہ انتظار حلوے کا رہتا تھا۔حلوے بنانے کا اور ایک دوسرے کے ہاں بھیجنے کا اتنا رواج تھا کے تمام قوانین اس کی تیاری میں لگ جاتیں اور اگر کسی کے ہاں سے حلوہ نہ آتا تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے کے کیا یہ فلاں صاحب وہاں بھی ہیں۔شب برات ہی نہیں منائی اگر کوئی فاتحہ خوانی کے خلاف ہوتا گھر میں حلوہ بنانے کی ممانعت ہوتی پھر بھی خواتین حلوہ بنا کر بھجوا دیتیں کیونکہ بچے بھی اداس ہوتے کے ہمارے ہاں حلوہ کیوں نہیں بنا۔کوئی بھی رسم ورواج اگر جڑ پکڑ جائے تو وہ زندگی کا ایک ایسا حصہ ہوجاتا ہے کے ہم تمام اہم کام چھوڑ کر اس کو ضرور پورا کرتے ہیں کیونکہ احباب انگلیاں اٹھاتے ہیں۔رشتہ دار سوال پوچھنے لگتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کے اگر ہم اس روایت کو زندہ رکھیں گے تو ہم کو اس کا حصہ بننا پڑے گا۔یہ روایات کہاں سے آتی ہیں کیوں جڑ پکڑتی ہیں یہ سوچنے کی مہلت نہیں ملتی۔اور ہم کرتے چلے جاتے ہیں اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کے حلوہ بنانا شب برات میں ضروری ہے تو بنائیں مگر دوسروں پر دبائو ڈالنا ان کو مختلف ناموں سے پکارنا اور ہر حال میں مجبو کرنا درست نہیں ہے۔صرف شب برات ہی پر منحصر نہیں بلکہ ہر رسم و رواج کو اپنانے سے پہلے سوچیں اور دوسروں کو مجبور نہ کریں کے وہ بھی آپ کا ساتھ دیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here