یوکرین میں روسی اسپیکنگ کو خطرہ ہے!!!

0
101
حیدر علی
حیدر علی

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس کرہ ارض پر جنگ و جدل کا بپا ہونا ، جیتے جاگتے روشنیوں کے شہر کا ویران ہوجانا ، بچوں کا ماں سے جدا ہوجانا اور سہاگ کا یکلخت اُجڑ جانا ایک فطرتی امر ہے، گذشتہ کل تک آدم خور عفریت اپنے خونخوار جبڑے کھولے ایشیا وافریقہ کے پُر امن انسانوں کو اپنا نخچیر بناتے رہے، اور آج سامراجیت کے دامن کو دبوچنے کیلئے خود ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں، انسان کا ذہن ماؤف ہوجاتا ہے جب وہ تصور کرتا ہے کہ کس طرح برسوں برسوں سے بسا ہوا گھر اچانک توپوں اور ٹینکوں کی شیلنگ سے دوزخ کی آگ کے نذر ہوجاتا ہے، کل تک مائیں جو لوریاں سناکر اپنے بچوں کو گود میں سلایا کرتیں تھیں آج وہ پناہ کی تلاش میں اپنے بچوں کا ہاتھ تھامے در در ماری پھر رہی ہیں، اُنکا پہلا پناہ گاہ تھیٹر یا اسپورٹس کمپلکس ہوتا ہے اور وہاں سے وہ پھر اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر کسی انجان ملک کی دوسرے نمبر کی حقیر مہمان بن جاتی ہیں، اُن کا میزبان شکوہ کرتا رہتا ہے کہ بس اِس سے زیادہ لوگوں کی اب گنجائش نہیں، ہم اُن کی کفالت نہیں کرسکتے، اور بھی ملک سامنے آئے اور اُنہیں سنبھالے۔ تصویر کا دوسرا رخ ایک یہ ہے کہ یوکرین کے بیشتر پناہ گزین سفر کر رہے ہیں اپنی گاڑیوں پر ورنہ شام ،عراق افغانستان اور لیبیا کے شہریوں نے تو ترک وطن کیا تھا پیدل چل کر ، ویت نام کے شہریوں کو تو اپنے ملک سے مفرور ہونے کیلئے 5 ہزار فٹ کے بلند پہاڑوں کو عبور کرنا پڑتا تھا یہی وجہ ہے کہ میامی کے میئر نے اپنے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ اِس پُر آشوب دور میں قدرتی یا دنیاوی مصیبتوں سے محفوظ رہنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اپنے گھر میں ایک گاڑی اور ایک کشتی ضرور رکھیں،
یوکرین میں روسی زبان اور دوسری زبان بولنے والوں کے مابین چھوٹے پیمانے کی جنگ کوئی نئی بات نہیں.2014ء میں دونباس کے علاقائی لوگوں سے یوکرین کی فوج کا تصادم جس کے نتیجے میں 14 ہزار قتل اور 2.5 ملین افراد یوکرین سے ترک وطن کرکے غیر ممالک چلے گئے تھے، جن میں سے
نصف روس کو اپنا نشیمن بنایا تھا. یہی وجہ ہے کہ روس یوکرین کے معاملے میں اتنا زیادہ حساس ہے. اُسے خطرہ ہے کہ وہاں کی نصف آبادی جس کی مادری زبان روسی ہے انتہا پسند دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد ، مغرب پرست اور نیٹو کے حمایتیوں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کاٹ دئیے جائیںگے، 2014 ء سے 1015ء کے درمیان یوکرین خانہ جنگی کا آماجگاہ بنا رہا، وجہ اِس کی یہ تھی کہ یوکرین کے عوام کا ایک طبقہ حکومت کی نیٹو اور یورپ کی حمایتانہ پالیسی کی مخالفت میں تحریکیں چلانا شروع کردیں جو بعدازاں کریمیا کے روس کے ساتھ دوبارہ الحاق ہونے کی وجہ کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی، یوکرین کی فوج نے مظاہرہ کرنے والوں کو طاقت کے ذریعہ کچل دیا،
یوکرین کے مختلف علاقے کے لوگوں کی کھلے عام بغاوت، علیحدگی کا اعلان ، خانہ جنگی اور حکومت کے رِٹ کی ناکامیابی کی وجہ کر سارے فریقین اور دوسری مملکتوں نے مِنسک معاہدے کو عملی جامہ پہنایا،اِس معاہدے پر فرانس ، روس ، جرمنی اور یوکرین نے فروری 2015 ء میں دستخط کئے. معاہدے کی رو سے دونباس کے علاقے میں فوری طور پر جنگ بندی کرنے کا اعلان کیا گیا، یوکرین کی حکومت دوہیتسک اور لوہانسک کے علاقوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینے پر آمادہ ہوگئی. تاہم یوکرین کی حکومت معاہدے کی پاسداری کرنے میں مکمل طور پر ناکامیاب رہی، جس کے نتیجے میں 1.2 ملین دونباس کے علاقے کے لوگوں نے روس میں پناہ لینے کی درخواستیں دیں ہیں. یوکرین سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں ، روسی زبان بولنے والے افراد آج یوکرین میں ایک حقیقی سنگین صورتحال سے دوچار ہیں،
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوکرین میں جنگ بندی کب ہوگی؟ جنگ کے خاتمہ کے بعد بھی کیا ایک پائیدار امن وہاں قائم ہو سکے گایا پیوٹن کا اٹوٹ فیصلہ کہ یوکرین کو روس کی کٹھ پتلی ریاست بن کر رہنا پڑیگا؟ یوکرین نے گذشتہ ہفتہ روسی مندوب کی اِس تجویزکو مسترد کردیا کہ اُسے ایک نیوٹرل ریاست جیسی کہ سوئڈن اور آسٹریا ہے کے طرز پر اپنے ملک کو وضع کرنا پڑیگا. اِس کی عدم موجودگی میں جنگ بندی کے آثار مفقود ہیں. یوکرین نے اِسے قبول کرنے سے واضح طور پر انکار کردیا ہے لیکن دونوں ملکوں کے مندوبین کے مابین گفت و شنید جاری ہے.روس کے سائے میں رہنے کی وجہ کر یوکرین کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ نیٹو جو مغربی ممالک کی ایک اتحادی تنظیم ہے کا رکن بن جائے جو اِس کے دفاعی مفاد کیلئے ضروری ہے. تاہم روس نے ہمیشہ یہ اصرار کیا ہے کہ یوکرین اِس حکمت عملی سے باز رہے،بین الاقوامی قانون کے مطابق نیوٹرالیٹی کا دعوی کوئی ملک اُس وقت کر سکتا ہے جب وہ دوملکوں کی جنگ کے دوران مکمل طور پر غیر جانبدار ہو،مزید برآں وہ ملک کسی دوسرے ملک کے ساتھ کوئی فوجی معاہدہ نہ کرے یا کسی فوجی اتحاد میں شامل ہو،اِس کی بہترین مثال سوئیٹزر لینڈ، سویڈن، فِن لینڈ، آئیر لینڈ اور آسٹریا ہیں.تاہم اِن میں سے ہر ایک ملک نے اپنی نیوٹرالیٹی کی تشریح جداگانہ طور پر کی ہیں جیسے کہ کوستا ریکا ایک نیوٹرل ملک ہے ، اور اُس کی اپنی کوئی فوج نہیں، جبکہ سوئیٹزر لینڈ کی فوج ہے لیکن وہ کسی دوسرے ملک میں داخل ہونے کی مجاز نہیں،سویڈن فوجی طور پر ایک غیر جانبدار ملک ہے ، اور جنگ کے دوران بحیثیت ایک نیوٹرل کے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔فوجی مبصرین کی رائے میں یوکرین جہاں آج گھمسان کی جنگ اور فضائی حملے کا آج تیسرا ہفتہ ہے کو نیوٹرل ملک قرار دینا ہی امن کی بحالی کا واحد راستہ ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here