فاطمہ جناح سے ماہ رنگ بلوچ تک !!!

0
16
رمضان رانا
رمضان رانا

بلاشبہ ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح ہمشیرہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے وقت کے آمر، ظالم اور جابر غیر قانونی اور غیر آئینی جنرل ایوب خان کو للکارہ تھا جن کے ساتھ پاکستان کے مشہور سیاستدان شیخ مجیب، ولی خان، سردار نصر اللہ، حبیب جالب اور دوسری قیادت کھڑی تھی جن کے جلسہ عام میں پاکستان کے عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب نے مشہور زمانہ دستور نظم پڑھی تھی کہ ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا۔ جس پر حبیب جالب مرحوم پر مقدمہ غداری بن گیا تھا۔ بعدازاں فاطمہ جناح کو ان کے گھر میں گھس کر تکیہ میں منہ دیا کر مار دیا گیا تھا۔ جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور پوری قیادت ولی خان، اجمل خٹک، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، حبیب جالب معراج محمد خان اور دوسری قیادت اور سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا گیا تو بیگم نسیم ولی میدان میں آئیں جنہوں نے مردہ پی این اے کی تحریک کو زندہ کیا پارلیمنٹ سے استعفےٰ دیئے گئے تھے جس کی آڑ میں جنرل ضیا نے ملک پر مارشلا نافذ کرکے ایک ایسا فتنہ پیدا کیا جو آج پاکستان کی گلی کوچوں میں پھیلا ہوا ہے کہ جس سے جان چھڑانا مشکل ہوچکا ہے جس کی بھینٹ زیڈ اے بھٹو اور بینظیر بھٹو چڑھ چکے ہیں اگر ایک طرف جنرل ضیا نے بھٹو کو پھانسی دی تو دوسری طرف ان کے دہشت گرد جنرل مشرف نے بینظیر بھٹو کو شہید کردیا۔ چنانچہ بھٹو کی پھانسی کے بعد محترمہ بیگم نصرت بھٹو عوام کے پاس آئیں جن کا سر پھوڑ دیا گیا۔ بینظیر بھٹو کو پابند وسلاسل کیا گیا۔ پھر انہی ملک بدر کیا گیا جب وہ واپس آئیں تو عوام نے بینظیر بھٹو کو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب کیا جن کو سامراجی طاقتوں اور جنرلوں کے معاہدے پر عمل نہ کرنے پر آخر کار انہیں لیاقت باغ کی قتل گاہ پر سرعام شہید کیا گیا۔ بارہ اکتوبر1999 کو جب جنرل مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا۔ پوری قیادت قید کر دی گئی۔ پورا خاندان جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ تو بیگم کلثوم نواز نے جنرل مشرف کو للکارہ جس کو برداشت نہ کرتے ہوئے پورے خاندان کو سعودی حکومت کے ساتھ مل کر ملک بدر کردیا جو دس سال تک پاکستان نہ آپائے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عمرانی اور جابرانی حکومت کے دور میں مریم نواز کو جھوٹے مقدمات میں جیل بھیج دیاگیا جو دو سال تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرتی رہی۔ آج پھر ایک وقت ایسا آیا کہ بلوچستان کی واحد خاتون ماہ رنگ بلوچ اپنے حقوق کے لئے باہر نکلی جنہوں نے لاپتہ افراد کا مطالبے پر احتجاجات کا سلسلہ شروع کیا جو گزشتہ چند سالوں پاکستان کی گلی کوچوں میں بلوچ عوام پر ظلم وستم اور جبر کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں جن کو حسب معمول ڈراتے ہیں۔ ایک نہتی لڑکی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا ہے جو ایک ناقابل برداشت عمل ہے کہ اگر خواتین انسانی، شہری اور بنیادی حقوق پر آواز بلند کریں تو ان کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا جائے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ خاص طور پر بلوچستان کے موجودہ حالات کے موقع پر یہ سب کچھ زیادتی ہوگی۔ بہرحال کے جنرلوں جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، سرمایہ داروں اور رس گیروں پر مشتمل حکمرانوں کے خلاف خواتین کی جدوجہد اور مزاحمت کار قابل ستائش عمل ہے جس کو ہر جمہوریت اور انصاف پسند کا ساتھ دینا ہوگا کہ کوئی بقول جالب سچ ہی لکھتے جانا لہٰذا حکمرانوں کو فوری طور پر غیر مشروط طور پر ماہ رنگ کو رہا کرنا ہوگا۔ بلوچستان کے عوام کے درپیش دیرینہ مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ بلوچستان کو مکمل صوبائی خودمختاری دینا ہوگی۔ صوبے سے فوجی آپریشن کو کالعدم قرار دے کر حکومت عام عوام کے نمائندگان کو سونپنا ہوگا۔ بلوچستان کے وسائل اور مسائل کا حق صرف اور صرف بلوچ عوام کا ہے جس میں باہر کی مداخلت بند کرنا پڑے گی بلوچستان میں کرایہ کے سرداروں کی بجائے عوام پر مشتمل حکومت قائم کی جائے جس میں سرداروں، امیروں، وڈیروں پر پابندی عائد ہو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here