پاکستان نے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو اسلحہ کی سپلائی روکنے کے لئے عالمی سطح پر انسدادی کارروائیوں کا مطالبہ کیا ہے۔یہ مطالبہ دہشت گردی کی حالیہ سرگرمیوں میں افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی اسلحہ کے استعمال کی تصدیق کے بعد کیا گیا ہے۔پاکستان نے جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسے عسکریت پسند گروپ جدید ترین ہتھیار حاصل کر رہے ہیں، جو افغانستان میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد باقی بچ جانے والے اسلحہ کے ذخیرے میں لئے جا رہے ہیں۔پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکی قیادت میں بین الاقوامی افواج نے اگست 2021 میں کابل سے انخلا کے دوران خودکار اسالٹ رائفلز اور نائٹ ویژن ڈیوائسز جیسے جدید ہتھیار چھوڑے تھے، جو بعد میں طالبان کے ہاتھ لگے۔ پاکستان نے اس انخلا کو ناقص منصوبہ بندی پر مبنی قرار دیا۔ امریکا پہلے پاکستان کے موقف کی تردید کرتا رہا کہ یہ ہتھیار طالبان کے ہاتھ لگے تاہم بعد میں اس کا اعتراف کر لیا گیا۔پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے مشن کے قونصلر سید عاطف رضا نے یو این سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ غیر ریاستی عناصر کے پاس جدید غیر قانونی اسلحہ تیار کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا اس میں ریاستی عناصر کا بھی کردار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ان عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال پر تشویش ہے، جو یہ ہتھیار پاکستان کی مسلح افواج اور شہریوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں قوم پرست کہلانے والے عسکریت پسندوں ،کے پی کے میں تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے گروہ پاکستان کی سلامتی پر حملے کر رہے ہیں۔افواج پاکستان گزشتہ پچیس سال سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں جبکہ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ دہشتگردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ دستیاب ہے۔ دہشتگردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔ بالخصوص پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔پچھلے تین سال میں ایسے کتنے ہی واقعات ہیں جن میں اتحادی افواج کے افغانستان مین چھوڑے اسلحے کے استعمال کی رپورٹس ملیں ۔25 اور 26 مارچ 2024 کی درمیانی رات کو بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشت گردوں نے تربت میں پاکستان نیول بیس پر حملہ کرنے کی کوشش کی تاہم سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں سے آپریشن کے دوران M32 ملٹی شاٹ گرینیڈ لانچر، M14/A4، نائٹ تھرمل ویژن ڈیوائسز اور دیگر امریکی ساختہ اسلحہ برآمد کیا۔اس سے قبل بی ایل اے کے دہشت گردوں نے 20 مارچ کو گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملہ کی ناکام کوشش کی۔ جی پی اے پر حملے کے دوران بی ایل اے کے دہشتگردوں نے امریکی اسلحے کا استعمال کیا جو سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی میں برآمد کیا۔دہشتگردوں سے برآمد ہونے والے امریکی اسلحے میں M-16/A4،AK-47 ، گرینیڈ لانچر اور ہینڈ گرینیڈز شامل تھے۔ اسی طرح، 29 جنوری کو سکیورٹی فورسز نے ضلع شمالی وزیرستان میں انٹیلی جنس آپریشن کیا ۔ اس آپریشن کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں دہشتگرد نیک من اللہ کو جہنم واصل کیا گیا۔ دہشتگرد سے برآمد ہونے والا اسلحہ امریکی ساختہ تھا ۔ افغانستان سے امریکی انخلا کو تین سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے ۔افغانستان کے عبوری حکمران اصرار کرتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری متعارف کرائی ہے، لیکن برسوں سے طالبان نے خوف کو ہتھیار بناکے حکومت کی ہے ۔امریکہ کا چھوڑ اسلحہ ناصرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی طالبان دھڑے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔گزشتہ برس افغان طالبان نے ایک پریڈ کا انعقاد کیا جس میں اسالٹ رائفلز اور ہمویوں سمیت بڑے پیمانے پر امریکی اسلحہ و گاڑیوں کی نمائش کی۔امریکی محکمہ دفاع کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق انخلا کے بعد 78 طیارے، 40,000 فوجی گاڑیاں اور 300,000 سے زیادہ ہتھیار افغانستان میں پیچھے رہ گئے تھے۔اپنے حلف کے موقع پر، صدر ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ پر الزام لگایا کہ وہ 2021 کے انخلا کے بعد امریکی فوجی اثاثے طالبان کے حوالے کر رہے ہیں ۔اب صدر ٹرمپ طالبان سے 7 ارب ڈالر کی مالیت کا ہارڈ ویئر واپس کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔صدر ٹرمپ کے مطالبے پرطالبان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ “یہ افغانستان کی ریاست کے اثاثے ہیں اوریہ افغانستان کے قبضے میں رہیں گے”۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ریاست کے اثاثوں پر سودے نہیں کرتے۔ دو ہزار اکیس مین افغانستان سے اتحادی فوجوں نے جس طرح انخلا کیا تھا اس نے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما قوتوں کے سامنے مایوس کن مناظر کو جنم دیا ۔پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی کارروائیوں میں امریکی ساختہ اسلحے کے استعمال سے متعلق یورو ایشین ٹائمز ایک رپورٹ جاری کر چکا ہے۔ علاوہ ازیں، پینٹاگون کے جاری بیانات سے بھی حقائق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔پینٹاگون نے ایک اور بیان میں اعتراف کیا کہ امریکا نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان نیشنل ڈیفنس اور سکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔ اس بیان کی روشنی میں یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد ان ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی کو سرحد پار دہشت گرد حملوں میں مدد دی۔پاکستان نے عالمی برادری کے ایک ذمہ دار و امن پسند رکن کے طور پر اپنے خدشات سکیورٹی کونسل کے سامنے رکھے ہیں۔ملک کی سلامتی اور خطے میں امن کے قیام کی خاطر پاکستان کی امریکی اسلحہ کے متعلق شکایات کو اہمیت ملنی چاہئے۔
٭٭٭