ضمیر فروشوں کی عید!!!

0
106
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ضمیر فروشوں کی عید اور چاندی دونوں عروج پر، اپوزیشن اور حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں لاکھوں افراد جمع کرنے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ ایک دوسرے کو دھونس کے ذریعے دبانے کی کوشش ہے یا خانہ جنگی کی فضا پیدا کرنے کی سازش تو یہ اقدام غیر جمہوری ہونے کے ساتھ قابل مذمت بھی ہے۔ جب بھی اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس سے بیورو کریسی کا فائدہ ہوتا ہے یا پھر تیسری قوت کے آنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک بھی چل رہی ہے اور طرح طرح کی تجویزیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ سندھ ہائوس میں ضمیر خریدے جا رہے ہیں، الیکشن کمیشن بتائے کیا آئین میں ہارس ٹریڈنگ کی اجازت ہے، قوم چوروں اور برائی کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم عمران خان وسیب کے دورے پر آئے ، میلسی میں بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا، اس وقت بھی ان کا لب و لہجہ جارحانہ تھا، وہ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے سندھ ہائوس میں ضمیر خریدنے کی بات اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تھی تو میاں نواز شریف کی طرف سے ہارس ٹریڈنگ اور چھانگا مانگا کلچر وجود میں آیا تھا، اگر ایک لمحے کیلئے دیکھا جائے تو تحریک انصاف میں جو لوگ شامل ہیں یہ بھی دوسری جماعتوں سے نکل کر تحریک انصاف کا حصہ بنے ہیں مگر الیکشن سے پہلے جو لوگ کابینہ میں موجود ہیں ان کیلئے تحریک انصاف کیلئے کوئی اتنی بڑی خدمات نہیں ہیں۔ عدم اعتماد کا فیصلہ اسمبلی میں ہونا ہے، کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ارکان اسمبلی نے کرنا ہے، مگر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری ، متحدہ اور پی ڈی ایم رہنمائوں سے ملاقات کے دوران سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے 5سال کیلئے مائنس پی ٹی آئی قومی حکومت کی تجویز دی اور کہا کہ قومی حکومت 5 سال سر جوڑ کر ملک کی خدمت کرے۔ حالانکہ گزشتہ دور میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ اتحادی بنے تھے اس میں عمران خان شامل نہیں تھے، لیکن وہ اتحاد کتنا عرصہ کامیاب رہا؟ وہی دن تھے جب بحیثیت وزیر اعلی شہباز شریف سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مرکز کے خلاف جلوس نکالتے تھے۔ سیاسی عدم استحکام اور اقتدار کی رسہ کشی ہمیشہ معیشت کو نقصان پہنچاتی ہے اور ہارس ٹریڈنگ بھی بڑھ جاتی ہے۔ معیشت کی تباہی کا خمیازہ ہمیشہ نچلے طبقے کو بھگتنا پڑتا ہے۔موجودہ عدم اعتماد وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ہے ، اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی حکومت خود بخود دھڑام سے گر جائے گی۔ ویسے بھی پنجاب کے معاملات مرکز سے کنٹرول ہوتے ہیں یہ تو آئین کی مجبوری ہے ورنہ ہر وزیر اعظم کی خواہش ہوتی ہے کہ وزیر اعظم کے ساتھ وہ پنجاب کا وزیر اعلی بھی ہو۔ سارا معاملہ پنجاب کا ہے ، صوبہ پنجاب کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا باسٹھ فیصد اور باقی تین صوبوں کی آبادی کل ملا کر 38فیصد ہے ،یوں سمجھئے کہ تین پہیے کار کے ہیں اور ایک ٹریکٹر کا ہے،تو اس اثنا میں وفاق کی گاڑی کس طرح چلے؟۔ مسائل تو پیدا ہونگے، عمران خان نے وعدہ کیا کہ 100دن میں صوبہ بنائوں گا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ ملک کی مقتدر قوتوں کو اس بارے فوری سوچنا چاہئے تاکہ بار بار اس طرح کے مسائل پیش نہ آئیں ، موجودہ پارلیمانی سسٹم میں یہ بھی بہت بڑا سقم ہے کہ سینیٹ میں 38فیصد کو 75فیصد حصہ حاصل ہے جبکہ 62فیصد کو محض 25فیصد حصہ ملا ہوا ہے۔ سیاسی درجہ حرارت میں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار بھی متحرک ہو گئے ہیں ، وزیر اعلیٰ نے 5روز میں 155ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کیں، ن لیگی ، پی پی کے ارکان اسمبلی بھی ملے، ترین ، علیم اور ہم خیال گروپ کے پارلیمنٹرینز نے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ وزیر اعلی سردار عثمان خان بزدار کو ناکام وزیر اعلیٰ کہنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ امن و امان اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ان کا دور پرویز الٰہی اور شہباز شریف سے زیادہ خراب نہیں ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر بینرز آویزاں کر دئیے گئے ہیں کہ پنجاب کی مجبوری ہے ، چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ ضروری ہے۔
اپوزیشن کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ لوگوں کو ایک کروڑ روزگار دینے کا دعویٰ کرنے والے خود بیروزگار ہونے جا رہے ہیں اور لوگوں کو پچاس لاکھ گھر دینے کا دعویٰ کرنے والے خود وزیر اعظم ہائوس سے بے گھر ہونے جا رہے ہیں، مگر یہ بھی دیکھئے کہ عمران خان کو اس لئے پرواہ نہیں کہ ان کی اولاد میں سے سیاسی میراث کا کوئی وارث نہیں اور وہ کشتیاں جلا کر میدان سیاست میں ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ وزیر اعظم سے زیادہ وزیر اعلی پنجاب بننے کی خواہش رکھتے ہیں ، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی کہا ہے کہ وزیر اعظم پنجاب کی وزارت اعلی جو بھی فیصلہ کریں گے قبول ہوگا، مخدوم صاحب خود بھی وزارت اعلی کے خواہشمند تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ (ق) لیگ کی جتنی سیٹیں ہیں اس سے زیادہ عہدے حاصل کئے ہوئے ہیں، اس کے باوجود آصف زرداری کے سیاسی حربے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنوانے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں تاہم مسلم لیگ ق کے رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ عمران خان ایماندار آدمی ، نیت بھی اچھی ، حکومت چھوڑی نہ اپوزیشن جوائن کی، بہرحال یہ صرف باتیں ہیں، باقی معاملات طے ہو چکے ہیں، میاں برادران نے آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے خلاف جو انتقامی کارروائیاں کیں وہ اس کے بدلے لے رہے ہیں، اس کشمکش کا سندھ حکومت کو فرق نہیں پڑے گا ، البتہ یہ بھی ہے کہ کامیابی یا ناکامی کی صورت میں فائدہ تحریک انصاف کا ہے کہ ناکامی کی صورت میں وہ ایک مرتبہ پھر مظلوم بن کر ووٹروں کے سامنے آئے گی ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here