میں نے کہانی کا آغاز کیسے کیا، یہ بھی ایک سوال ہے، جو کچھ عرصے بعد مجھ سے پوچھا جائیگا، کیونکہ اب میں نے باقاعدہ کہانی لکھنا شروع کر دی ہے اور شروع تو بہت ہی زیادہ شروع سے کر دیا تھا مگر بیشتر کہانیاں ستی اور لاابالی طبیعت کی نظر ہو گئیں کہاں بھیجوں کسے بھیجوں، کہانی اچھی نہیں ہے۔ اگلی کہانی بھیجوں پھر تھوڑے دنوں بعد خیال آیا کہانی رکھی کہاں ہے۔ ایک صفحہ تو اس کہانی کا غائب ہی ہو گیا۔ یہ سب باتیں سارے لوگ تو نہیں کرتے مگر میں کرتی تھی۔ اس لئے جب اچھی طرح سنجیدگی سے کام کرنا شروع کیا تو دل لگا کر بھیجنا بھی شروع کیا اور پھر قدر دانوں نے قدر بھی کی اور اب یہ خیال آتا ہے کہ کچھ لوگ شروع سے اپنے قدر دان کیوں نہیں ہوتے جی ہاں اگر ہم اپنے قدر دان ہوں اپنی صلاحیت کو شروع ہو جائے، ہم دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہماری قدر کریں ہمارے فن کی قدر کریں ہماری صلاحیت کا لوہا مانیں۔ مگر ہماری اپنی سستی اور لا ابالی پن بعض اوقات ہمیں ہی اپنے فن کی قدر نہیں کرنے دیتا اور لائف یوں ہی گزر جاتی ہے۔ ہاں تو میں نے کہانی لکھنے کا آغاز کیسے کیا اور کب کیا؟ اس سے پہلے کہ کوئی مجھ سے پوچھے میں ہی اس پر روشنی ڈال کر دیکھوں میں نے پرائمری سکول میں پڑھنا شروع کیا ،رسالے جو کہ بچوں کے نام سے آتے تھے ،اس کے بعد خود بخود دل چاہا ایک کہانی میں بھی لکھوں لہٰذا ایک بچوں کی کہانی لکھ کر کھلونا، رسالے میں بھیج دی۔ چھپ گئی اس کا مطلب ہے پسند آئی ہوگی، اس کے بعد پھر پڑھنے میں وقت گزرا لکھا کچھ نہیں، پھر جوش چڑھا تو ایک دو اور رسالوں میں بھیج دیا اور خوش ہو گئے چلو کہانی چھپ گئی، اس کے بعد پھر کہانیاں پڑھنے میں وقت گزارا لکھنے میں نہیں، کچھ مضامین جنگ اخبار میں طلباء کے صفحے میں لکھے، اس کے بعد سائنس کے مضامین نے اپنی جانب متوجہ کر لیا اور پھر کہانی غائب، پھر کالج میں جوش چڑھا ایک دو کہانیاں لکھ کر رسالوں میں بھیجی جو کہ رسالے والوں نے خوشی سے چھاپیں مگر اب بھی سنجدیدہ نہیں ہوئے پھر ایک وقفہ اور یوں ہی وقت گزرتا رہا۔ آخر کار ایک وقت آیا کہ یہ احساس ہوا کہ اللہ نے یہ صلاحیت ضرور دی ہے کہ اچھا لکھ سکتی ہوں اور دنیا میں قدر دان لوگ بھی ہیں یوں اس کا احساس جاگا کہ ہم کیوں پرانی صلاحیتوں کو بروقت نہیں پہچانتے ہیں اور ہم کیوں اپنا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں۔ اس طرح اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے کہ کہانی کب لکھنی شروع کی اور کیوں کیسے شروع کی کیا محرک بنا، زندگی کے ہر موڑ پر کہانی اور افسانے لکھے مگر اس موڑ پر کبھی یہ نہیں سوچا کہ بس دل لگا کر لکھنا ہے۔ اس لیے اب جب میں نے لکھنا شروع کیا ہے تو خُوب سے خُوب تر کی تمنا اچانک شروع ہو گئی۔ بس انسان ایسا ہی تو ہے کہانی بھی ہم سب کی مختلف ہوتی ہے، میری کہانی یہی ہے۔
٭٭٭