انسانی خدمت کا روشن چراغ!!!

0
227
جاوید رانا

محترم قارئین کرام! امید ہے کہ آپ اپنے پیاروں کے ہمراہ خیریت سے ہونگے، شاہینوں کی بھارت و نیوزی لینڈ کیخلاف شاندار فتح اور قوم کے جذبۂ سرشاری پر ہمارے گزشتہ کالم کی پسندیدگی پر اظہار ممنونیت قبول فرمائیں۔ آج کے کالم کا آغاز حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے ایک شعر سے کر رہے ہیں جو فی الواقع صرف اُمت مسلمہ کیلئے ہی نہیں سارے عالم کیلئے وہ پیام انسانیت ہے جو پُر امن و خوشحال کرۂ ارض کی تعبیر بن سکے۔ علامہ نے فرمایا، ”خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے، میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا۔ بلا شبہ یہ درس، یہ سبق صرف دین مبین ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب و معاشروں کا اولین فریضہ ہے۔ بنی نوع انسان کی فلاح کیلئے جن بندگان خدا نے خود کو وقف کیا وہ تاریخ میں زندہ و جاوید ہوگئے۔ انسانیت اور بندگان خدا کیلئے مستحسن کردار ادا کرنے والوں کو ہر دور میں نہ صرف یاد رکھا جاتا ہے بلکہ وہ ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانیت کیلئے خدمات انجام دینے والوں کی طویل فہرست میں مذہب، قومیت، رنگ و نسل و زبان کی کوئی تخصیص نہیں۔ فلورینس نائٹ اینگل، مدرٹریسا، مادام رُتھ فائو، عبدالستار ایدھی جیسے بڑے خدمت انسانی کے ناموں کی ایک طویل فرہست ہے جو تنگیٔ داماں کے باعث اس کالم میں سموئی نہیں جا سکتی۔
آج کے اس دور کجکلاں میں بھی ایسے عظیم لوگ ہیں جو علامہ کے الفاظ میں خدا کے بندوں سے پیار کرتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کیلئے انہوں نے اپنے عیش و آرام کو تج کر کے زندگی اس عظیم مقصد کیلئے وقف کر دی ہے۔ اپنی خدمات کے باعث عزت و احترام کی حامل ایسی ہی شخصیت امریکی نژاد رچرڈ گیری کی ہے۔ جو امریکہ میں اپنا عیش و آرام خیر باد کہہ کر پاکستان میں گزشتہ تین عشروں سے بھی زیادہ عرصے سے قوت سماعت سے محروم لاکھوں لوگوں کی زندگی سنوارنے و گزارنے کی بیش بہا خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ رچرڈ گیری امریکہ میں اپنے خاندان کے ہمراہ متمول و خوشگوار زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا بیٹا قوت سماعت سے محروم تھا، رچرڈ گیری اپنے بیٹے کی زندگی کی اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ہر وہ اقدام کرتے رہے جو اس معاشرے کا با مقصد رکن بنائے اور وہ اپنی اس جدوجہد میں کامیاب رہے۔ رچرڈ کا بیٹا بہ رضائے الٰہی ایکسیڈینٹ کی وجہ سے دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا۔ بیٹے کی جدائی سے دلبرداشتہ ہونے کے برعکس رچرڈ میں ایک جذبہ اُجاگر ہوا کہ ان کا بیٹا تو ان سے جدا ہو گیا لیکن دنیا میں موجود سماعت سے محروم سارے بچے میرے ہی بچے ہیں اور انہوں نے اس جذبے کے تحت سماعت سے محروم افراد کو معاشرے میں ریگولر زندگی کا حامل بنانے کے عزم کیساتھ انسانیت کی خدمت کیلئے امریکہ چھوڑ کر تیسری دنیا میں اپنا مشن شروع کیا۔ اس فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ میں ڈیف (سماعت سے محروم) افراد کیلئے بہترین سہولیات و تعلیم اور زندگی معمول کے مطابق گزارنے کے وسائل موجود تھے لیکن تیسری دنیا خصوصاً جنوبی ایشیاء کے ممالک اس سے محروم تھے۔ رچرڈ نے اپنے اس مشن کیلئے ایشیاء اور برصغیر کے مختلف ممالک کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان میں سماعت و گویائی سے محروم افراد کے حوالے سے دِگرگوں حالات کے باعث پاکستان کو اپنے مشن کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا۔ رچرڈ نے اس کا آغاز کراچی میں صدر کے علاقے میں دو چھوٹے کمروں سے کیا۔ رچرڈ کے مطابق ان کے ایک دوست عبدالرحمان ان کے اس مشن کے آغاز اور پروجیکٹ کیلئے ان کے ہم قدم رہے۔ بعد ازاں حکومت سندھ نے گلستان جوہر میں ایک متروکہ بلڈنگ انہیں تفویض کر دی۔ رچرڈ نے 1989ء میں اپنے اس مشن کا آغاز کیا اور 1998ء میں اسے ادارے کی شکل دیتے ہوئے (Deaf-Reach) ڈیف ریچ کا نام دیا۔ دو کمروں سے انسانی خدمات کا آغاز کرنے والے ڈیف ریچ نے قوت سماعت سے محروم افراد کیلئے تعلیم، تربیت، روزگار اور فنی و پیشہ ورانہ صلاحیتوں کیلئے شاندار و مثالی خدمات کا دائرہ کراچی سے بڑھا کر سندھ کے متعدد شہروں اور دیہات کیساتھ اب لاہور تک وسیع کر دیا ہے۔ سماعت سے محروم بچوں کیلئے کراچی کے علاوہ حیدر آباد، سکھر، نواب شاہ، ٹنڈو الہ یار، لاہور، و جہلم میں اسکول، کالج، ٹریننگ سینٹرز کے قیام کیساتھ ٹیچرز ٹریننگ، والدین کی تربیت، حصول روزگار کی تربیت اور کارپوریٹ اداروں و سرکاری ملازمتوں میں اسپیشل افراد کی شمولیت کے اقدامات اور پاکستان کیلئے خصوصی طور پر سماعت سے محروم لوگوں کیلئے سائن لینگویج کی جدّت کیساتھ آئی ٹی، فائن آرٹس و دیگر فنون لطیفہ میں اسپیشل افراد کی شرکت و مہارت کے کارہائے نمایاں کئے ،یقیناً رچرڈ گیری کی بے لوث و انتھک محنت ، محبت اور خیر سگالی جذبے کی اعلیٰ تصویر ہے۔ ان کی گرانقدر خدمات کا اعتراف حکومت پاکستان نے ستارۂ امتیاز سے نواز کر کیا ہے۔ راقم الحروف کا اعزاز ہے کہ رچرڈ کے اس سفر میں شکاگو میں فنڈریزر کا پہلا ساتھی رہا۔
رچرڈ گیری کے انسانیت کی خدمت میں ان کی ذات اور ان کا ادارہ ڈیف ریچ انسانی حقوق کی وہ زریں مثال ہے جو رہتی دنیا تک تاریخ کا روشن باب ہے ، ان افراد اور اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے جو محض زبانی و بیانی نعروں اور دعوئوں سے حقوق انسانی کی دوکانیں چمکاتے ہیں اور ان کا عمل زیرو ہوتا ہے۔ بندگان خدا کی فلاح کیلئے اپنی زندگی وقف کر دینے والے رچرڈ گیری کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا اور زندہ و جاوید رہے گا۔ مفادات اور تنازعات سے بھری دنیا میں رچرڈ گیری جیسی شخصیت اندھیروں میں روشنی کا ماخذ ہے اور اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے ابھی مایوس نہیں ہوا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here