محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضاکا سلام پہنچے جیسا کہ گذشتہ کالم بھی اس بات کی نشاندھی کی گء آج پھر یہ بات دھرا رہا ہوں اور بار بار یہی کہوں گا حتی کی دل میں جاگزیں ہوجائے۔ قارئیں سے درخواست ہے گھنٹوں نیٹ پر اپنا وقت بیکار میں برباد کرنے کے ایک دس منٹ ایسی پوسٹس بھی پڑھا کریں ۔ہم ہفتہ وار کالم میں دو تا چار آیات مع ترجمہ اور تفسیر پیش کریں گے ہم سب ان کو بغور پڑھیں گے تو ہمارے علم و عمل میں کافی اضافہ ہوگا یہ دنیا اور آخرت کا سودا ہے کہ دنیا میں گزارے وقت کا حساب بھی دینا ہوگا اور یہ بھی کہ قلم اور کتاب پاس تھا اخبار تک لکھنے کی رساء وہاں لوگوں کو کیا بتایا کیا راہ دکھائ، اللہ پاک ہم سب کی سعی کو قبول فرمائے اور ساتھ ہی مجیب لودھی صاحب کی بھی کاوشوں کا صلہ دنیا و آخرت میں عطا فرمائے جو اس پر آشوب دور میں بھی کمیونٹی خدمات مذھبی دینی خدمات کررہے ہیں نیویارک کا عظیم الشان میلاد میں ان کی بڑی معاونت رہی ماشا اللہ اور جزاک اللہ اللہ پاک ہم سب کو قرآن مجید پڑھنے اور سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی ۖ ۔
****تفسیر سور البقرہ****
****تفسیر : صراط الجنان****
****آیت ,62**،63**
اِن الذِین امنوا و الذِین ہادوا و النصر و الصبِین من امن بِاللہِ و الیومِ الاخِرِ و عمِل صالِحا فلہم اجرہم عِند ربِہِم-و لا خوف علیہِم و لا ہم یحزنون()و اِذ اخذنا مِیثاقم و رفعنا فوقم الطور-خذوا ما اتینم بِقو و اذروا ما فِیہِ لعلم تتقون، ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ایمان والوں نیزیہودیوں اورعیسائیوں اور ستاروں کی پوجا کرنے والوں میں سے جو بھی سچے دل سے اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئیں اور نیک کام کریں توان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔اور یاد کروجب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہار ے سروں پر طورپہاڑ کو معلق کردیا (اور کہا کہ) مضبوطی سے تھامو اس (کتاب) کو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے اور جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے اسے یاد کرواس امید پر کہ تم پرہیز گار بن جاو۔
تفسیر: صراط الجنان
و اِذ اخذنا مِیثاقم : اور یاد کروجب ہم نے تم سے عہد لیا۔} اس آیت میں یہودیوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ وقت یاد کرو کہ جب اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ وہ توریت کو مانیں گے اور اس پر عمل کریں گے لیکن پھر انہوں نے اس کے احکام کو بوجھ سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کردیا حالانکہ انہوں نے خود بڑی التجا کر کے حضرت موسی علیہِ الصلو والسلام سے ایسی آسمانی کتاب کی درخواست کی تھی جس میں قوانینِ شریعت اور آئینِ عبادت مفصل مذکور ہوں اور حضرت موسی علیہِ الصلو والسلام نے ان سے بار بار اس کے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کا عہد لیا تھا اور جب وہ کتاب عطا ہوئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور عہد پورا نہ کیا ۔ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالی سے کیا ہوا عہد توڑا تو حضرت جبریل علیہِ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے طور پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سروں کے اوپر ہوا میں معلق کردیا اور حضرت موسی علیہِ الصلو والسلام نے ان سے فرمایا : تم یا تو عہد قبول کرلو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم کچل ڈالے جاو گے۔ اس میں صور عہد پورا کرنے پر مجبور کرنا پایا جارہا ہے لیکن درحقیقت پہاڑ کا سروں پر معلق کردینا اللہ تعالی کی قدرت کی قوی دلیل ہے جس سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ بے شک حضرت موسی علیہِ الصلو والسلام اللہ تعالی کے رسول ہیں اور ان کی اطاعت اللہ تعالی کو مطلوب ہے اور یہ اطمینان ان کو ماننے اور عہد پورا کرنے کا اصل سبب ہے۔
یاد رہے کہ دین قبول کرنے پر جبر نہیں کیا جاسکتا البتہ دین قبول کرنے کے بعد اس کے احکام پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ کسی کو اپنے ملک میں آنے پر حکومت مجبور نہیں کرتی لیکن جب کوئی ملک میں آجائے تو حکومت اسے قانون پر عمل کرنے پر ضرور مجبور کرے گی۔
احکامِ قرآن پر عمل کی ترغیب:
علامہ اسماعیل حقی رحم اللہِ تعالی علیہِ فرماتے ہیں اللہ تعالی کی کتابوں سے مقصود ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا ہے نہ فقط زبان سے بِالترتیب ان کی تلاوت کرنا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی بادشاہ اپنی سلطنت کے کسی حکمران کی طرف کوئی خط بھیجے اور اس میں حکم دے کہ فلاں فلاں شہر میں اس کے لئے ایک محل تعمیر کر دیا جائے اور جب وہ خط اس حکمران تک پہنچے تو وہ اس میں دئیے گئے حکم کے مطابق محل تعمیر نہ کرے البتہ اس خط کو روزانہ پڑھتا رہے ،تو جب بادشاہ وہاں پہنچے گا اور محل نہ پائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ حکمران عتاب بلکہ سزا کا مستحق ہو گا کیونکہ اس نے بادشاہ کا حکم پڑھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا تو قرآن بھی اسی خط کی طرح ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ دین کے ارکان جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کی تعمیر کریں اور بندے فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہیں اور اللہ تعالی کے حکم پر عمل نہ کریں تو ان کا فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا حقیقی طور پر فائدہ مند نہیں۔(روح البیان، البقر، تحت الآی: ، / ، ملخصا)
یہی بات امام غزالی رحماللہِ تعالی علیہِ نے بھی متعدد جگہ ارشاد فرمائی ہے۔
**تفسیر سور البقرہ**
**تفسیر : صراط الجنان**
**آیت ,64**
ثم تولیتم مِن بعدِ ذلِ-فلو لا فضل اللہِ علیم و رحمتہ لنتم مِن الخسِرِین()
ترجمہ: کنزالعرفان
اس کے بعد پھر تم نے روگردانی اختیار کی تو اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فضل اللہِ : اللہ کا فضل۔} یہاں فضل و رحمت سے یا تو توبہ کی توفیق مراد ہے کہ انہیں توبہ کی توفیق مل گئی اور یا عذاب کو موخر کرنا مراد ہے یعنی بنی اسرائیل پر عذاب نازل نہ ہوا بلکہ انہیں مزید مہلت دی گئی۔ (مدارک، البقر، تحت الآی: ، ص)
ایک قول یہ ہے کہ فضل ِ الہی اور رحمت ِحق سے حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی ذات پاک مراد ہے معنی یہ ہیں کہ اگر تمہیں خاتم المرسلین صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے وجود کی دولت نہ ملتی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی ہدایت نصیب نہ ہوتی تو تمہارا انجام ہلاک و خسران ہوتا۔
بیضاوی، البقر،تحت الآی: ، / ، روح المعانی، البقر، تحت الآی: ، / ، ملتقطا)
اس سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم مخلوق پر اللہ تعالی کا فضل بھی ہیں اور رحمت بھی ہیں۔
**تفسیر سور البقرہ**
**تفسیر : صراط الجنان**
**آیت ,65**
و لقد علِمتم الذِین اعتدوا مِنم فِی السبتِ فقلنا لہم ونوا قِرد خسِین()
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یقینا تمہیں معلوم ہیں وہ لوگ جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے دن میں سرکشی کی۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ دھتکارے ہوئے بندر بن جاو۔
تفسیر: صراط الجنان
{ الذِین اعتدوا : جنہوں نے سرکشی کی۔} شہر ایلہ میں بنی اسرائیل آباد تھے انہیں حکم تھا کہ ہفتے کا دن عبادت کے لیے خاص کردیں اور اس روز شکار نہ کریں اور دنیاوی مشاغل ترک کردیں۔ ان کے ایک گروہ نے یہ چال چلی کہ وہ جمعہ کے دن شام کے وقت دریا کے کنارے کنارے بہت سے گڑھے کھودتے اور ہفتہ کے دن ان گڑھوں تک نالیاں بناتے جن کے ذریعہ پانی کے ساتھ آکر مچھلیاں گڑھوں میں قید ہوجاتیں اور اتوار کے دن انہیں نکالتے اور کہتے کہ ہم مچھلی کو پانی سے ہفتے کے دن تو نہیں نکالتے، یہ کہہ کر وہ اپنے دل کو تسلی دے لیتے۔ چالیس یا ستر سال تک ان کا یہی عمل رہا اور جب حضرت داود علیہِ الصلو والسلام کی نبوت کا زمانہ آیا تو آپ علیہِ الصلو والسلام نے انہیں اس سے منع کیا اور فرمایا کہ قید کرنا ہی شکار ہے جو تم ہفتے ہی کو کر رہے ہو۔ جب وہ باز نہ آئے تو آپ علیہِ الصلو والسلام نے ان پر لعنت فرمائی اور اللہ تعالی نے انہیں بندروں کی شکل میں مسخ کردیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ نوجوان بندروں کی شکل میں اور بوڑھے خنزیروں کی شکل میں مسخ ہوگئے، ان کی عقل اور حواس تو باقی رہے مگر قوت گویائی زائل ہوگئی اور بدنوں سے بدبو نکلنے لگی، وہ اپنے اس حال پر روتے رہے یہاں تک کہ تین دن میں سب ہلاک ہوگئے، ان کی نسل باقی نہ رہی اور یہ لوگ ستر ہزار کے قریب تھے۔
روح البیان، البقر، تحت الآی: ، / -، تفسیر عزیزی (مترجم / -، ملتقطا
اس واقعہ کی مزید تفصیل سورہ اعراف کی آیت 163تا 166 میں آئے گی۔
حیلہ کرنے کا حکم:
یاد رہے کہ حکم ِ شرعی کو باطل کرنے کیلئے حیلہ کرنا حرام ہے جیسا کہ یہاں مذکور ہوا اور حکمِ شرعی کو کسی دوسرے شرعی طریقے سے حاصل کرنے کیلئے حیلہ کرنا جائز ہے جیسا کہ قرآن پاک میں حضرت ایوب علیہِ الصلو والسلام کا اس طرح کا عمل سورہ ص آیت 44 میں مذکور ہے۔
اس کے ساتھ ہی اجازت ملتے ہیں اگلے ہفتے خیر اندیش
٭٭٭