گھری ہے طوائف تماش بینوں میں!!!

0
183
جاوید رانا

قارئین کرام! جس وقت ہمارا یہ کالم آپ کے زیر مطالعہ ہوگا دنیا بھر میں مقیم پاکستانی وطن عزیز کی محبت سے سرشار قرارداد پاکستان کے حوالے سے اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کر رہے ہونگے یا کر چکے ہونگے 23 مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور اور 14 اگست 1947ء کو اس قرارداد کی عملی تصویر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام اللہ رب العزت کا مسلم امہ کیلئے بہت عظیم انعام تھا۔ پاکستان کے وجود میں آئے 75 سال ہونے کو آئے ہیں۔ اس دوران وطن عزیز اور قوم کو جن مراحل سے گزرنا پڑا ان میں مسرت و کامیابی کے مظاہر بھی ہیں اور کرب و بلا کے معاملات بھی شامل رہے ہیں۔ تاہم سیاست کے کھیل میں بانیان قوم کی رحلت کے بعد جو حالات رہے ہیں وہ کسی بھی طرح مثالی نہیں کہے جا سکتے، ملک تین عشروں سے زیادہ عرصہ آمریتوں کے زیر نگیں رہا لیکن جب بھی جمہوریت کے نام پر سیاسی اشرافیہ نے عنان حکومت سنبھالی وطن عزیز کے حالات ابتر ہی ہوتے چلے گئے۔ ہم اپنے گزشتہ کالموں میں بہت کچھ عرض کر چکے ہیں، بزرگوں سے سُنی ہوئی ایک کہاوت سے جمہوریت اور سیاست کی حالت پیش کر دیتے ہیں، ہیجڑوں کے گھر بیٹا پیدا ہوا تو انہوں نے اُسے چُوم چُوم کر مار ڈالا۔ اس میں ہیجڑوں سے مراد مفادات و حکمرانی کی بھوکی سیاسی اشرافیہ ہے جبکہ بیٹا جمہوریت ہے جسے ان حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے اَدھ مرا کر دیا ہے۔
امریکی صدر ابراہام لنکن نے جمہوریت کے حوالے سے کہا تھا گورنمنٹ آف دی پیپلز، بائی دی پیپلز، اینڈ فار دی پیپلز، یعنی حکومت عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کیلئے۔ وطن عزیز میں اس قول کے معانی و مفاہیم کو ارباب سیاست نے اس طرح تبدیل کر دیا ہے کہ لفظ By اب ان کیلئے Buy ہو گیاہے اور پیپلز کو عوام کی جگہ سیاسی اشرافیہ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں کی جمہوری سیاست کا تجزیہ کریں تو ہمارا Buy اور پیپلز کا متذکرہ استدلال آپ کا اتفاق ہی بنے گا۔ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حالیہ منظر نامہ Buy دی پیپلز (منتخب ارکان)، ہارس ٹریڈنگ یا لوٹا کریسی کی حالیہ صورتحال 1989ء میں اس وقت کی وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی فلم کا ری میک ہے البتہ نیوٹرل کے لاحقے کا فرق ضرور سامنے آیا ہے۔ اُس وقت صدر مملکت سے لے کر تمام طاقتور حلقے اپوزیشن کے طرفدار اور عملی معاونین تھے جبکہ اس وقت مقتدرین غیر جانبداری کے داعی ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ عمران خان کیخلاف متذکرہ تحریک کی کامیابی کیلئے اپوزیشن کا سارا زور اور دارومدار بکائو اراکین پارلیمنٹ، اتحادیوں اور باغی اراکین پر ہے جبکہ عمران خان کی تمام تر کوششیں اس بات پر ہیں کہ خریداری کی منڈی اور خلاف آئین و قانون ان ہتھکنڈوں کی مکمل بیخ کنی کر کے مستقبل کو بھی ہارس ٹریڈنگ کی اس لعنت سے پاک کر دیا جائے۔
سودے بازی اور وفاداریوں کے تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ آج کا نہیں، ہر دور میں جاری رہا ہے اور ہر زمانے میں سیاست کا جزو بنا ہے ہمیں اس وقت وہ شہرہ آفاق شعر یاد آرہا ہے جو معروف دانشور شورش کاشمیری سے منسوب ہے۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
سچ تو یہ ہے کہ طوائف کے بھی بعض اصول ہوتے ہیں اور اس کے کوٹھے پر تماش بینوں کو ان مروجہ یا متعینہ اصولوں پر عمل کرنا ہوتا ہے لیکن سیاسی طوائف الملوکی اس ڈگر پر آچکی ہے جہاں اصول و ضابطے سیاسی تماش بینوں کے مفادات کے تابع ہو جاتے ہیں اور مخالفین کیلئے باعث تعزیر قرار پاتے ہیں یہ تماشے چھانگا مانگا، مری اور ہیلی کاپٹر میں بھر بھر کر قابل خرید اور وفاداریاں تبدیل کرنے والوں سے تو عبارت ہیں ہی اور واضح طور پر نظر آتے ہیں کہ اقتدار کی راہداریوں میں شمولیت اور وقت کیساتھ چلنے کیلئے ایک سے دوسری جماعت میں چھلانگ لگانے اور وفاداریاں تبدیل کرنے والے کون لوگ ہیں اور کن مفادات سے سیراب ہوتے ہیں۔ میڈیا میں قارئین ان کی تفاصیل سے بخوبی آگاہی حاصل کر چکے ہیں۔ ہماری تحقیق و ذرائع کے مطابق تو یہ تماشہ ماضی قریب سے نہیں گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے کہ مسلم لیگ سے ریپبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، پیپلزپارٹی، جونیجو لیگ، نواز لیگ، ق لیگ، تحریک انصاف، جی ڈی اے، باپ پارٹی غرض ایک دوسری جماعت میں چھلانگ لگانے اور وفاداری تبدیل کرنے کا رحجان ایک طویل سیاسی تاریخ ہے۔
ان تاریخی حقائق پر ریسرچ کرتے ہوئے ایک ایسی حقیقت کا ادراک ہوا جس سے وفاداریوں کی تبدیلی اور حکمرانی کی محبت کی خواہش کی تصویر نے ہمیں دُکھ پر مجبور کر دیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپریل 1958ء میں جب وہ اسکندر مرزا کی کابینہ کے وزیر تھے تو صدر اسکندر مرزا کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے انہیں پاکستان کی تاریخ کا اہم ستون قرار دیا تھا۔ ایوب خان کے مارشل لاء لگانے کے بعد وہی بھٹو صاحب محض چھ ماہ میں فیلڈ مارشل کے نہایت وفادار بن گئے تھے۔ مانا کہ بعد ازاں انہوں نے ایوب خان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، پیپلزپارٹی کو مقبولیت کی انتہاء پر پہنچایا۔ عظیم کارہائے نمایاں انجام دیئے لیکن وفاداری کی تبدیلی اور فوج کے مفاد کا عنصر وہاں بھی کار فرما رہا۔ آج عمران خان کو فوج کا طعنہ دینے والے اپوزیشن کے ڈھکوسلے باز یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ خود یا ان کے بڑے یا جماعتیں بھی اسی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں فرق صرف زمانوں اور حالات کا ہے جو آئندہ بھی رہے گا جیسے کسی بھی ریاستی مشینری کے پرزوں کو بوقت ضرورت چلایا جاتا ہے اسی طرح ریاستی مشینری کے سیاسی پُرزوں کو بھی بوقت ضرورت استعمال کیا جاتا ہے اور رہے گا۔
اس بار سیاسی منظر نامے میں فرق یہ آیا ہے کہ کپتان ماضی کے حکمرانوں کی طرح پسپا ہونے کیلئے تیار نہیں ہے بلکہ وہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد اور بکائو مال کو ٹھکانے لگانے نیز آئندہ کیلئے ہارس ٹریڈنگ و لوٹا کریسی کے مکمل طور سے دفن کرنے کیلئے عوامی طاقت، آئینی و قانونی اقدامات اور اپنے عزم اور اقدامات سے اپنے خلاف ہونیوالے اس تماشے کو ناکام بنانے کیلئے پُر عزم نظر آتا ہے تاکہ سیاست کی طوائف ان تماش بینوں کے نرغے سے نہ صرف نکل سکے بلکہ آئندہ کیلئے بھی اس کھیل تماشے میں نہ گھیری جا سکے۔ اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے تصادم کے خدشات کا اظہار کیا تھا، شکر ہے کہ عدالت عظمیٰ کے استفسار پر حکومت نے جلسے سے گریز اور پارلیمنٹیرینز کے ووٹ ڈالنے کا یقین دلایا ہے تاہم ہارس ٹریڈنگ اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے حوالے سے ریفرنس پر لارجر بینچ کی سماعت 25 سے 29 مارچ تک ہونی ہے، اس کے بعد ہی فیصلہ سامنے آئیگا۔ خدا کرے کہ ہماری سیاست کی سمت مثبت ہو اور ہر بار کی طرح تضاد اور بغض و سودے بازی سے باہر نکل سکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here