فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! عشق اور اخلاص ایسی دولتیں ہیں جو صاحبان نصیب کو ہی حاصل ہوتی ہیں اور پھر جس شخص کو نبیۖ کا عشق اور دین کے ساتھ اخلاص نصیب ہوجائے تو ساری خدائی اس پر قربان ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اس طرح کے لوگ بہت کم ملتے ہیں جن کو یہ دولت نصیب ہو ان خوش نصیب لوگوں میں سے ایک اسود راعی رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ روایت ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر اسود راعی نامی شخص جوکہ حبشی غلام تھا، راعی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بکریاں چرایا کرتے تھے اور دیگر جانوروں کو بھی کیونکہ راعی کا معنیٰ چرواہ ہے۔ آپ یہودیوں کے مویشی چراتے تھے صحرا سے اس قدر انس تھا کہ وقت کا اکثر حصہ وہیں گزرتا تھا ایک دن وادی میں پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ سارے یہودی جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں تلواروں پر پانی چڑھایا جارہا ہے۔نیزے اور تیروں کی نوکیں حیقل کی جارہی ہیں جگہ جگہ سپاہیوں کی قطار کھڑی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہوئی اس نے تعجب کرتے ہوئے دریافت کیا۔ یہ کس جنگ کی تیاری ہو رہی ہے، تو اسے جواب ملا، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عرب کے نخلستان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو نبوت کا مدعی ہے۔ اپنے ساتھ دیوانوں کی ایک فوج لے کر وہ فلاں مقام پر ٹھہرا ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ مقابلے کی تیاریاں ہم کر رہے ہیں آج کل میں اس کی فوجیں ہمارے قلعہ کی فصیل یعنی دیوار تک پہنچنے والی ہیں یہ جواب سن کر چروا ہے کے لاشعور میں اچانک شوق کی جستجو کا ایک چراغ جل اٹھا۔ اور وہ حقیقت سے قریب ہو کر سوچنے لگا بلاوجہ کوئی دیوانہ نہیں ہوتا وہ بھی دیوانوں کی ایک فوج جو جان دینے کے لئے ساتھ آئی ہے۔یہ ایسے ہی شیدائی معلوم نہیں ہوتی یہ کشش صرف جمال حق کی ہے ہو نہ ہو انہوں نے سچائی کو کھلم کھلا دیکھ لیا ہے۔ یہ سوچتے سوچتے دفعتاً اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ یقیناً وہ ایک سچا رسول ہے یہ کہتے ہوئے اٹھا اور بکریوں کو ساتھ لیتے ہوئے بے خودی کے عالم میں ایک طرف چل پڑا۔ بالآخر وہ سراغ لگاتے لگاتے رسول اللہۖ کے لشکر میں پہنچ گیا حضورۖ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اس نے پہلا سوال یہ کیا۔ آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں۔ حضورۖ نے اس کے دل کشور کا دروازہ کھولتے ہوئے جواب دیا۔ اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ واحد ولا شریک ہے۔ اس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے نبیوں اور رسولوں علیھم الصّلٰوة والسّلام کا ایک طویل سلسلہ قائم فرمایا جس کی آخری کڑی میں ہوں۔ اس نے پھر دریافت کیا ”اگر میں خدائے ذوالجلال پر ایمان لائوں اور آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائوں تو اس صلہ مجھ کیا ملے گا؟ فرمایا: عالم آخرت میں ہمیشہ کا سکون وآرام پھر اُس نے جذبہ شوق میں بے قابو ہو کر تیسرا سوال کیا۔ یارسول اللہ! میں حبشی نژاد ہوں، میرے جسم کا رنگ سیاہ ہے۔ میرا چہرہ نہایت بدشکل ہے میں ایک صحر انور وچرواہا ہوں۔ میرے بدن سے پسینے کی بدبو نکلتی ہے۔ اگر میں بھی آپ کے دیوانوں کی فوج سے شامل ہو کر راہ خدا میں قتل کردیا جائوں تو کیا مجھے بھی جنت میں داخلے کی اجازت مل سکے گی؟ ارشاد فرمایا: ضرور ملے گی، یہ سنتے ہی وہ بے خود ہوگیا۔ اور اسی عالم میں کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ اس کے بعد حضورۖ سے اس نے بکریوں کی بابت دریافت کیا۔
ارشاد فرمایا: دوسرے کی چیز ہمارے لئے حلال نہیں۔ انہیں قلعہ کی طرف لے جائو اور کنکر مار کر ہنکادو۔یہ سب اپنے اپنے مالک کے پاس چلی جائیں گی چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ لیکن ولولئہ شہادت کے ہیجان سے اسے ایک لمحہ قرار نہیں تھا فوراً لئے پائوں واپس لوٹ آیا اور مجاہدین اسلام کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ واقعات کے راوی بیان کرتے ہیں کہ دوسرے دن جب میدان جنگ میں سپاہیوں کی قطار کھڑی ہوئی تو جذبہ شوق کا اضطراب اس کے سیاہ چہرے سے شبنم کے سفید قطروں کی طرح ٹپک رہا تھا۔ طبل جنگ بجتے ہی اس کے ضبط وشکیب کا بند ٹوٹ گیا اور وہ ایک بے تاب دیوانے کی طرح دشمنوں کی یلغار میں کود پڑا۔ اس کے سیاہ ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تلوار کا منظر ایسا دلکشا معلوم ہوتا تھا جیسے کالی گھٹائوں میں بجلی تڑب رہی ہو۔ نہایت ہی بے جگری کے ساتھ اس نے دشمن کا مقابلہ کیا۔ زخموں سے سارا بدن لہولہان ہوگیا تھا لیکن شوق شہادت کے نشے میں وہ دشمن کی طرف بڑھتا ہی گیا۔ یہاں تک کہ چاروں طرف سے اس پر تلواریں ٹوٹ پڑیں۔ اب وہ نیم جان ہو کر زمین پر تڑپ رہا تھا اور گھائل جسم میں اس کی روح مچل رہی تھی کہ اب جنت کا فاصلہ بہت قریب رہ گیا تھا۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد جب اس کی نعش حضورۖ کے سامنے لائی گئی تو اس کے فیروز بخت انجام پر آپۖ کی پلکیں بھیگ گئیں فرمایا: اسے جنت کی نہر سے غسل کی سعادت نصیب ہو رہی ہے۔ اب اس کے چہرے کی روشنی سے جنت کے بام ودو جگمگا اٹھے ہیں۔ اس کے پسینے کی خوشبو سے حوران بہشتی اپنے آنچل بسا رہی ہیں۔ جنت کی دو حسین حوریں اسے اپنے جھرمٹ میں لئے ہوئے باغ خلا کی سیر کرا رہی ہیں۔ اس کی فیروز بختی پر سب محو حیرت تھے کہ اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے اور کوئی عمل خیر نہیں کیا تھا۔ اس کے نامہ عمل میں نہ ایک وقت کی نماز تھی نہ ایک سجدہ تھا سفید وشفاف کفن کی طرح زندگی کا سادہ ورق لٹے ہوئے گیا اور بڑے بڑے زاہدان شب زندہ دار کو اپنے پیچھے چھوڑ گیا اللہ تعالیٰ اپنے اس خاص بندے کے عشق واخلاص سے ہمیں وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭