رمضان کی رونقیں ہیوسٹن میں!!!

0
80
شمیم سیّد
شمیم سیّد

رمضان المبارک آیا بھی اور چلا بھی گیا پتہ ہی نہیں چلا ،اس رمضان کی رونقیں دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گئیں۔ افطاری اور سحری کی پارٹیاں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے ہی ہوتی رہیں اور لوگ ہر پارٹی میں بڑی تعداد میں موجود رہے، لگتا تھا پورا شہر اُمڈ آیا ہو کیونکہ ہیوسٹن میں پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے چاہے کتنی ہی پارٹیاں ہوں لیکن اعلان یہ ہونا چاہئے کہ فری ہے پھر تو کچھ بھی ہو جائے ہر سحری اور افطار میں لوگوں کی شرکت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے لیکن ایک بات جو ہم لوگوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم لوگ رزق کی بے حُرمتی کرتے ہیں ایک ہی وقت میں وہ کھانے کی پلیٹ کو مینار بنا دیتے ہیں چاہے بھوک ہو یا نہ ہو لیکن ہوس نے ہم لوگوں کو ایسا بنا دیا ہے ہمیں خیال ہی نہیں ہے کہ ہم جو یہ رزق چھوڑ رہے ہیں وہ یہاں ضائع جائیگا اور ہمارے ملک میں جو لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں جن کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہے اور ہم یہاں پر رزق بچا کر اپنے ان مجبور بھائیوں کا سوچ بھی نہیں سکتے جو رات کو بھوکے پیٹ سو جاتے ہیں ہماری دو بڑی افطاریوں میں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ ہمارے لیے ایک سبق کا مقام ہے ، ہر سال ہیوسٹن کی سب سے بڑی افطار پارٹی میئر آف ہیوسٹن کہلاتی ہے جس کا تمام خرچہ پاکستان کے مایہ ناز سپوت جن کے پاس اللہ تعالیٰ نے دولت کی ریل پیل دی ہوئی ہے اس کے باوجود وہ بڑا دل بھی رکھتے ہیں جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں پچھلے کئی سالوں سے وہ افطار کا پورا خرچہ خود اُٹھاتے ہیں اس سال سعید شیخ کی سربراہی میں ہیوسٹن کی 35 کے قریب ایسوسی ایشنوں نے مل کر اس افطار ڈنر کا انتظام کیا اور کافی فنڈ اکٹھا کر لیا اس کے باوجود جاوید انور نے اپنا حصہ ڈالا، اور میئر سلوسٹرٹرنر کی یہ آخری افطار پارٹی ایک یادگار پارٹی بن گئی۔ اس کے باوجود کہ وہاں کوئی غریب لوگ نہیں آئے تھے بڑی بڑی اچھی فیملیاں موجود ہوتی ہیں اور ہمارے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں وہ کیا سوچتے ہونگے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو اس طرح کرتے ہیں اور سونے پہ سہاگہ جو افطار کے ڈبے رکھے ہوئے تھے وہ خالی کر کے اس میں کھانا بھی لے کر جاتے ہوئے لوگوں کو دیکھا گیا خدارا ان چیزوں سے اجتناب کریں۔ دوسری بری افطار فورڈ بینڈ کائونٹی کی ہوئی وہاں پر یہ ہوا کہ میریٹ ہوٹل کی انتظامیہ نے افطار کے بعد ان خالی بکس کو اٹھوا لیا تاکہ لوگ کھانا نہ لے جا سکیں۔ لوگوں کی شکایت بھی رہتی ہے کہ ہم اتنا پیسہ ان افطاریوں پر خرچ کرتے ہیں جس سے ثواب کم اور لوگوں کے پول کھل جاتے ہیں یہی پیسہ پاکستان میں ان غریبوں کے لئے بھیج دیں تاکہ اس سے ہمارے کتنے گھروں کی کفالت ہو سکے گی مگر ایک سلسلہ پچھلے پچیس سالوں سے چل رہا ہے اس لیے اس کو ختم نہیں کرتے۔ افطاریوں کو تو اب چھوڑیں پچھلے کئی سالوں سے اب سحریوں کا بھی سلسلہ چل پڑا ہے اور وہاںبھی رش دیکھنے والا ہوتا ہے اور لوگ بھرپور حصہ لیتے ہیں اور لگتا ہے کہ پورا پاکستانی ماحول برنس روڈ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ،دو بڑی سحریاں ایک ہی دن ہوئیں ایک فرینڈز آف کراچی کے زیر اہتمام اور دوسری پاکستان ایسوسی ایشن آف گریٹر ہیوسٹن کے پلیٹ فارم سے ہوئی۔ دونوں سحریوں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ لوگوں کی سوچ سے زیاد لوگ وہاں رات گئے تک سحری کرتے رہے ہم لوگوں کو مقابلہ نہیں کرنا چاہیے اگر یہ سحری الگ الگ دن ہوتیں تو شاید اس سے بڑی سحری ہیوسٹن کی تاریخ میں نہیں ہوتیں بہر حال دونوں جگہوں پر لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اب آخری عشرہ بھی ختم ہونیوالا اور ختم القرآن کی محفلیں ہو رہی ہیں اور ختم قرآن کی محفلوں میں ضرور شرکت کریں پھر دوبارہ یہ مہینہ میسر ہو یا نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور نماز قائم کریں۔ رمضانوں میں تو مساجدیں بھری رہتی ہیں لیکن اس کے بعد پھر وہی ماحول ہو جاتا ہے شیطان باہر آجاتا ہے اور مسجدوں کی رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری نمازیں، روزے قبول فرمائے اور ہمیں پکا نمازی بنا دے اور ہماری مسجدیں بھی رمضانوں کی طرح نمازیوں سے آباد رہیں۔ آمین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here