ارم ناز : سسکتی آرزو کی شاعرہ!!!

0
21
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

ارم ناز کا تعلق جھنگ سے ہے۔ آپ کا کلام اور کالم واٹسس ایپ پر زیب وزینِ نظر بنتا رہتا ہے۔ آپ نے فرمائش کی کہ ان کی شاعری کی کتاب جو عنقریب منص شہود پر آنے والی ہے اس کا دیباچہ تحریر کروں۔کتاب کو pdf میں بھیجا اور چند طبع شدہ کالم بھی بھیجے۔ آپ نے غزل کے علاوہ آزاد نظمیں بھی لکھتی ہیں۔ چونکہ تخلص نازکرتی ہیں تو اِس نسبت سے بے نیاز ہوں گی۔ استاد فوق لدھیانوی کی شاعری کی کتاب زخمِ جاں میری پسندیدہ کتاب ہے۔ ان کا ایک شعر ہے!
حسن ادھر ہے ناز میں، عشق اِدھر نیاز میں
مارا گیا غریب دل دونوں کی ساز باز میں
شاعری کے علاوہ آپ ملک کے موقر روزناموں میں کالم لکھتی ہیں۔ آپ کے کالموں کے موضوعات ادبی، سماجی، اور مذہبی ہوتے ہیں۔ آپ کا ایک کالم علامہ اقبال اور مولانا جلال الدین رومی بہت ایمان افروز اور فکر انگیز ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا!
پیرِ رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
دنیائے ادب : ٹھٹھرتا دسمبر اور شاعری بھی ایک ادبی شہکار ہے۔ بحیثیت ایک کالم نگار آپ کا مقام معتبرو مستند ہے۔ رہا آپ کی شاعری کا معاملہ تووہ عالمگیر ہے۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے آپ کی شاعری کا محور و مرکز محبت ہے۔ انسان کی تلاش نہ صرف ارم ناز کا مسئلہ ہے رومی کی بھی یہی تمنا تھی کہ آدمیوں کے ہجوم میں انساں نہیں ملتا اور وہ انسانم آرزو ست کا ورد کرتے رہے۔ ناز ارم کی شاعری میں دردِہجراں اصل میں دردِانساں ہے۔ وہ کسی ایسے ہمدم و ہمساز کی متلاشی ہیں جو احترامِ انسانیت کے رموز سے بلد اور محبتِ محبوبہ کا پاسدار ہو۔ آپ کا دل ایک ایسا شعل جوالہ ہے جس کی سوزش نے آپ کی خاکسترِ جاں کو بھسم کر دیا ہے اور ہر شعر کو پیکرِ غم بنا دیا ہے۔ جس طرح آپ دلِ سادہ رکھتی ہیں اِسی طرح آپ کی شاعری بھی سلیس و سادہ ہے۔ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ کہتی ہیں!
ہم پہ گزری ہے جو محبت میں
داستاں بے مثال رکھتے ہیں
تیری ہاں میں نہ ہاں مِلائیں ہم
ہم کہاں یہ مجال رکھتے ہیں
جس کو چاہیں بنا ہی لیں اپنا
ہم ارم وہ کمال رکھتے ہیں
ایک دوسری غزل میں یوں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتی ہیں !
دل میں دھڑکن بھی تو سنی ہو گی
آپ تو آتے جاتے رہتے ہیں
ہم ارم روشنی کے عاشق ہیں
دیپ دل کے جلاتے رہتے ہیں
دل کے دیپ جلا کے روشنی کا اہتمام کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔دل کی دھڑکن سے مجھے اپنا ایک شعر یاد آیا جو میرے شعری مجموعہ متاعِ درد کی ایک غزل کا شعر ہے!
یہ تو میرے ہی دل کی دھڑکن تھی
میں یہ سمجھا کہ آ رہے ہیں آپ شاعری کی بنیاد جذبات پر ہے ، جذبات کا سرچشمہ دل ہے اور دل کی زندگی دل کی دھڑکن ہے ۔ اگر یہ تھم جائے تو زندگی کا خاتمہ۔ لیکن جس دل کی دھڑکن میں محبوب بستا ہو وہ مر کے بھی زندہ ہوتا ہے کیونکہ وہ دل امر ہو جاتا ہے اور بقولِ حافظ شیرازی
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جرید عالم دوامِ ما
آپ کا یہ شعر ایک زندہ و پائندہ شعر ہے۔ کہتی ہیں
مرے پیچھے مری منزل پڑی تھی
مرے آگے سفر رکھا ہوا تھا
اِس شعر کو پڑھتے ہی مرزا غالب کا یہ شعر یاد آجاتا ہے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے
ارم ناز کی زیادہ تر نظمیں آزاد شاعری کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ اکثر نظمیں رومانوی ہیں۔ چند نظمیں مذہبی اور عقیدتی ہیں۔ لیکن آپ کی ایک ایسی نظم بھی ہے جس پر آپ خود نازاں ہیں اور فخریہ انداز میں اِس کو اپنے دل کی ترجمان نظم گردانتی ہیں۔ اِس نظم میں وہ اپنے آپ کو عصرِ حاضر کی سسی، ہیر اور سوہنی سے تعبیر کرتی ہیں ۔ سسی کو پنوں کی تلاش رہی۔ ہیر رانجھے کے فراق میں سرگرداں رہی۔ سوہنی کو مہینوال کی آتشِ فراق نے بھسم کر ڈالا اور نذرِ دریا کیا۔ اِس نظم میں ارم ناز اپنے آپ کو جوگن اور دیوانی کہتی ہیں۔ وہ خدا سے دعا گو ہیں کہ جس طرح اس نے زلیخا کو یوسف سے ملایا اسے بھی کوئی یوسف عطا کر دے۔ عشق کی دنیا میں لیلی و مجنوں کی داستاں بھی ہے اور ولیم شکسپئر کے مشہور ِعالم ڈرامہ رومیو اور جیولٹ ( Romeo and Juliet)کی داستانِ محبت بھی ہے۔ یہ بھی دردناک اور الم انگیز داستانیں ہیں۔ در اصل ارم ناز تلاشِ یوسف میں سرگرداں تو ہیں لیکن وہ آج کل کے برادرانِ یوسف سے خائف ہیں کیونکہ عصرِ حاضر میں ایک یوسف بھی نہیں ہر طرف برادرانِ یوسف ہی ملتے ہیں۔
ارم ناز کو خدا نے اتنا نرم دل بنایا ہے کہ اس کی آواز میں بھی بلا کی نرمی، سوز اور شیرینی ہے۔ گویا اس کا نرم و نازک دل اس کی زبان پر مچلتا ہے۔بقولِ علامہ اقبال
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل وپاکباز
آپ بیک وقت رومانوی اور روحانی مزاج رکھتی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے فطرت نے انہیں رومینٹک اور خاندانی اقدار نے روحانی بنایا ہے۔ گویا وہ دو آتشہ ہیں۔ان کا دلِ نرم و نازک ان کی زبان پر ہے۔گفتگو اِتنے نرم لہجے میں کرتی ہیں بقولِ مرزا غالب
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
لیکن ارم ناز کے ہاں معاملہ نہ زبان بندی کا اور نہ زباں بریدگی کا ہے ۔ اِن کی محفل میں کوئی یہ نہیں کہ سکتا
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
آپ کے کالم تیغِ بے نیام ہیں۔ اِن کالموں میں انسانی حقوق، جمہوریت ، آزادی، انصاف اورمساوات کا پیغام ہیجبکہ آپ کی شاعری محبت کی آئینہ دار ہے-کلام بھی دلپزیرہے اور تکلم بھی دلنواز ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here