عمران خان کی فوج کا اسلام آباد پر یہ چھٹا حملہ تھا جس کا سلسلہ 2014سے شروع ہوا تھا جس میں سب سے پہلے 2014میں ایک طویل ترین پڑائو ڈالا گیا تھا جو120دن جاری رہا جس پر125کروڑ خرچ ہوئے۔ دوسرا لاشہ بردار حکومت پر ہوا تھا جس کی پرتھوی نسل کے فرد رانا ثناء اللہ نے ناکام بنایا۔ تیسرا 9مئی کو پوری فوج پر حملہ ہوا جو زیر بحث ہے کہ مقدمہ کہاں چلایا جائے۔ چوتھا شنگھائی کانفرنسوں کے مہمانوں پر ہونا تھا جس پر حملہ آور فوج تیار نہ ہوئی۔ چوتھا حملہ فلسطین کے قتل عوام پر ملکی اور قومی کانفرنسز پر کیا گیا کہ جس کا بائیکاٹ ہو ا ناہی فلسطینی عوام کے قتل عام پر کوئی افسوس کیا گیا۔ پانچواں24نومبر کو ہوا جس میں حملہ آور فوج تین دن تک ڈھول دھماکوں میں سفر پر رہی جب فوج ڈی چوک کے پانی پت کے میدان میں پہنچی تو اس کا واسطہ پیر محسن نقوی سے پڑا جنہوں نے یہ حملہ تین منٹ میں ناکام بنا دیا جس میں فوج کے سپہ سالارن رقبہ سلطانہ اور ان کا غلام گنڈا پور بمعہ اپنے تمام کمانڈروں کے بھاگ گئے جس میں جنرلوں کے جنرل ایوب خان کا پوتا عمر ایوب بھی بھاگ نکلا جس کے بعد یہ ثابت ہوا کہ دفاعی سپہ سالار پیر محسن نقوی بڑے چالاک گزرے ہیں جنہوں نے خاندان غوری اور غزنوی کے کمانڈروں کو تین دن تک موقع فراہم کیا جو اسلام آباد بنا رکاوٹ پہنچے لیکن تین منٹ میں تتر بتتر ہوگئے جس پر اسلام آباد کے رہائشی بہت خوش ہوئے جو آگے دن کے حملوں سے تنگ آچکے ہیں جنہوں نے محسوس کیا کہ حملہ آور نموریوں اور غزہ نویوں سے اسلام آباد کے ایوان بچ گئے جن پر قبضہ ہونا منصوبے میں شامل تھا جس کا حملہ آور لشکر بھاگا گیا جس کے کمانڈر صبح سویرے پختونخواہ کے قلعوں میں پائے گئے۔ حملے کی ناکامی ایک معجزہ ہے ورنہ ماضی میں2014میں120دن کا دھرنا جس پر125کروڑ اخراجات آئے تھے جس میں جنرلوں کی شمولیت تھی جس کی وجہ سے چینی صدر کو پاکستان کا دورہ ملتوی کرنا پڑا تھا۔ بعدازاں ڈی چوک پر حملہ ہوا جس کی حمایت چیف جسٹس بندیال کر رہے تھے وہ بھی ناکام ہوا جس میں عدلیہ کے حکم کو پھاڑ کر پھینک دیا گیا تھا۔ یا پھر پچھلے دنوں شنگھائی کانفرنسیں کو ناکام بنانے کے لئے پھر حملے کی دھمکی دی گئی جس میں ناکامی ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں فلسطینی عوام کے قتل عام پر ملک بھر کی سیاسی پارٹیوں نے ایک متحدہ کانفرنسیں کا انعقاد کیا تھا جس کا پی ٹی آئی نے نہ صرف بائیکاٹ کیا تھا بلکہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں کو برا بھلا کہا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے جو ہٹلر نما گروہ ہے جس کی قیادت اور پیروکار تمام کے تمام جھتے بازی پر ایمان رکھتے ہیں۔ جس سے آج ملک انتشار اور خلفشار کا شکار ہوچکا ہے۔ تاہم یہ ذاکر کشی کا سلسلہ تب سے شروع ہوا جب سے عمران خان کو پختونخواہ کی حکومت دی گئی ہے جو گزشتہ بارہ سال سے پختونخواہ کی حکومتی مشنری، افرادی قوت اور تمام وسائل لشکر کشی پر استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پختونخواہ آج پاکستان کا پسماندہ ترین منصوبہ بن کر رہ گیا ہے جس کی دولت اپنے پروپیگنڈے اور حملہ آور کے لئے استعمال کی جارہی ہے جس میں افغانستان کے مہاجرین اور تحریک طالبان کا بہت بڑا کردا ہے۔ جو ہر لشکر کشی میں پیش پیش ہوتے ہیں جس سے خطرات لاحق ہیں کہ کس پنجاب اور پختونخواہ کے عوام آپس میں نہ الجھ جائیں جس کی پوری پوری کوشش جاری ہے یہی وجوہات ہیں کہ آئے دن پختونخواہ سے لشکر کشی تیار کرکے پنجاب پر حملہ آوروں ہو رہی ہے تاکہ دونوں صوبوں کے عوام آپس میں کسی ہولناک نسلی جنگ میں مبتلا ہوجائیں یہ جانتے ہوئے کہ دونوں صوبوں میں جنرلوں ججوں اور نوکر شامل کا غلبہ ہے۔جو اپنے اقتدار کی زوال پذیرائی کے لئے کبھی بھی ایسا عمل نہیں کریں گے کہ جس میں ان کی نسلوں کو صوبے چھوڑ چھوڑ کر بھاگنا پڑے۔
٭٭٭