بلی تھیلے سے باہر آگئی…!!!

0
102
جاوید رانا

قارئین محترم! آخر کار نگران کی بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی، میرے ہم عمر اور سینیئرز کو یاد ہوگا کہ تاشقند معاہدے کے رد عمل میں اس وقت کے وزیر خارجہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بلی تھیلے سے باہر لانے کا دعویٰ کیا تھا، بلی تو باہر نہ آسکی البتہ ملک کا سیاسی منظر نامہ ضرور تبدیل ہو گیا تھا، جو ملک کے دو لخت ہونے کا سبب بنا اور پاکستان آدھا ہو گیا تھا، ممکن ہے ہمارے قارئین اس تمہید کو غیر متعلقہ حوالہ سمجھیں لیکن تاشقند کی بلی اور نگران کی بلی میں ایک مماثلت ضرور ہے، تاشقند کی بلی کے باہر نہ آنے میں بھی ان کا دخل تھا، جن کی منشاء کے باعث ”باپ نے باپ” کا نگران وزیراعظم کیلئے انتخاب کر لیا یا کروا دیا۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے حوالے سے قارئین ان کے خاندانی، علمی و سیاسی پروفائل سے یقیناً بخوبی آگاہ ہو چکے ہونگے، ہم صرف اتنا عرض کر دیں کہ موصوف ابتداء میں بلوچ نیشنلسٹ پارٹی کے فعال ایکٹوسٹ تھے، حالات و مقتدرین سے تنگ آکر لندن چلے گئے تھے۔ بوجوہ اور بعض انڈر اسٹینڈنگز کے سبب واپس آئے تو ڈیفنس کالج سے کورس کرنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے معتمد قرار پائے اور اپنی سیاست کا محور انہی اسباب پر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ا ن کی نشست پر سینیٹر منتخب ہونے کے بعد باپ کی تشکیل میں مرکزی کردار کے باعث BAP کے سینیٹر ہو گئے جو جماعت پی ٹی آئی کی تشکیل حکومت اور سپورٹ کرتی رہی ہے لیکن مقتدروں کی عمران سے ناراضی کے بعد درآمدی حکومت کا حصہ بن گئی تھی۔ نگران وزیراعظم کا تاج پہننے سے قبل موصوف کی اس تقریر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو انہوں نے عمران اور اس کے دور کیخلاف کی تھی جبکہ عمران کے دور میں وہ کپتان کے معتمد و سپورٹر ہونے کے دعویدار رہے تھے۔ نظر انداز تو اس امر کو بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ممکنہ امیدواروں میں انوار الحق کا نام کسی سیاسی، میڈیا بلکہ تجزیاتی حوالے سے سامنے نہیں آیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قائدین ایوان و اختلاف کے اعلان کے بعد سیاسی قد آوروں پر سکتہ کی سی خاموشی چھا گئی اور زرداری، نوازشریف، فضل الرحمن جیسے دیوہیکل بھی صدائے احتجاج بلند نہ کر سکے البتہ ایمل ولی اور اختر مینگل نے نعرۂ اختلاف بلند کرتے ہوئے اسے اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ قرار دیدیا، اختر مینگل نے تو نوازشریف سے بذریعہ خط اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ سازوں کی ماضی کی خوشہ چینیوں، جمہوریت و آئین مخالف کارروائیوں کے باوجود وفاداری کا طعنہ بھی مار دیا۔ اختر مینگل کے اس روئیے کو باخبر و تجزیہ کار حلقے مینگل و مگسی قبائل کے کئی عشروں پر محیط کاکڑ قبیلے سے سیاسی اختلاف کا سبب قرار دیتے ہیں۔ سیاسی اختلاف تو چیئرمین سینیٹ کیلئے سنجرانی اور کاکڑ میں بھی ہوا تھا لیکن وہ جو ایک محاورہ ہے گھڑ سوار ماہر ہو تو دو اَڑیل گھوڑوں کو بیک وقت قابو کر لیتا ہے، سو یہی کچھ ریاست کے گھڑ سواروں نے ان دونوں کیساتھ کیا اور دونوں قابو میں رہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ریاست میں چیئرمین سینیٹ، نگران وزیراعظم بلوچستان سے ہیں، ایک ماہ بعد چیف جسٹس کا عہدہ بھی بلوچستان کے پاس ہوگا۔ بادیٔ النظر میں تو یہ خوش آئند عمل ہے کہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے لیکن سیاسی انتظامی و ترقی کے حوالے سے سب سے زیادہ نظر انداز کئے جانے والے صوبے کو وفاق میں نمائندگی مل رہی ہے لیکن صاحبان دانش و تجزیہ اس اقدام خصوصاً نگران وزیراعظم کی نامزدگی کو کاکڑ فارمولا 2 قرار دے رہے ہیں اور اس طرح ملک میں سیاسی عمل و عوامی ترجیح کی تنسیخ و طوالت سے منسوب کر رہے ہیں۔ 90ء میں آرمی چیف جنرل حمید کاکڑ اور نوازشریف کے درمیان تنازعتی کیفیت سے وزیراعظم ہی نہیں اس وقت کے صدر کا بھی پتہ صاف کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سیاسی تاریخ کا اہم حصہ ہے، کچھ یہی حالات عمران کیخلاف تحریک عدم اعتماد اور حکومت ختم کئے جانے سے اب تک کے ہیں، حالیہ آرمی چیف کے کردار، فیصلوں اور تمام تر سختیوں، بندشوں اور سازشوں کے باوجود کپتان اور پی ٹی آئی کی مقبولیت اور عوامی حمایت کے مظاہر سامنے آرہے ہیں، ان سے اصل حکمرانوں ہی نہیں سیاسی مخالفین کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں اور ان کے پاس اس کے سواء کوئی چارہ نہیں کہ عوامی رائے کے مرحلے یعنی انتخابات کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک ڈالاجائے اور اس وقت کاانتظار کیا جائے جب عمران کو سزائوں اور نا اہلی کے ذریعے مکمل طور پر آئوٹ کر دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سیاسی ہرکاروں کیلئے یہ ممکن ہے، خصوصاً ایسے حالات میں کہ جب سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے ابھی آنے ہیں، اپیل و از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے پارلیمان کے قانون کو اُٹھا کے پھینک دیا ہے اور نوازشریف کی نا اہلی خاتمے کی کہانی سمندر بُرد ہو گئی ہے۔ مزید یہ کہ آرمی چیف کے دعوے عوام و فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے والے اندرونی و بیرونی دشمنوں سے آگاہ ہیں اور انہیں کامیاب نہیں ہونے دینگے میں کتنی حقیقت ہے؟ کیا اس سچائی سے نظریں چُڑائی جا سکتی ہیں کہ آج بھی عوام کی بہت بڑی اکثریت عمران کی حمایت میں اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ قیادت سے متنفر نہیں تو شاکی ضرور ہے، یوم آزادی پر عمران کے حق میں احتجاجی ریلیوں پر عوام پرتشدد اور گرفتاریوں کا عمل کیا عوام کے اسٹیبلشمنٹ کے حق میں جاتا ہے یا عمران کی حمایت و مقبولیت کا سبب بن رہا ہے؟ ظلم و بربریت، تشدد کا نتیجہ واضح طور پر ظالموں کیلئے نفرت اور مظلوم کیلئے مزید حمایت و جدوجہد اور اظہار یکجہتی ہوتا ہے، بیسویں صدی کے شاعر صفی لکھنوی کے مصرعے کے مطابق ”اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دو گے”، یعنی جذبہ جنون سختیوں اور تشدد و بربریت سے مزید بڑھتا ہے اور انقلاب کا داعی بنتا ہے۔
ریاست کو اپنی ملکیت سمجھنے والی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے باجگزار سیاسی گماشتے عمران اور عوام کے خوف میں اس حد کو پہنچ گئے ہیں کہ جمہوری، آئینی و عوامی تقاضوں سے انحراف کر کے انتخابی عمل کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک متروک رکھیں۔ ہم تو گزشتہ کئی کالموں سے یہ عرض کرتے رہے ہیں کہ عمومی انتخابات وقت پر نہیں ہونگے، انتخابی قوانین میں ترامیم، نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات کے اعلان کے بعد اب انوار الحق کاکڑ کی نامزدگی کے نتیجے میں یہ امر یقینی ہو گیا ہے کہ انتخابات دوچار نہیں بلکہ برسوں تاخیر کا ایجنڈا ہے، حکمرانوں کی بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے لیکن کیا وطن اور عوام کے حق میں ہے؟ ملک و قوم کی بقاء تمام اسٹیک ہولڈرز اور عوام کی یکجہتی میں ہے اور اس کا واحد ذریعہ عوام کا حق رائے دہی ہے، حکمرانوں کو سوچنا ہوگا۔
جس قدر ظلم کی شوریدہ سری بڑھتی ہے
اپنا انداز جنوں اورسواہوتا ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here