آج14اگست ہے پاکستان کا یوم آزادی ہم امریکہ میں بستے ہیں جب بھی یہاں4جولائی آتا ہے بہت جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ کاش پاکستان میں بھی یہی ہوتا آج یوم آزادی کے دن پاکستان کے لوگ بہت اداس اور مایوس ہیں۔ کسی محبت اور پیار سے پاکستان بنایا گیا تھا کوئی اس وقت اتنا اداس نہ ہوا ہوگا جب گھر بار لٹا کر پاکستان آیا تھا لوگ نئے ملک نئے گھروں اور ٹاٹ کے پردوں کے پیچھے بھی جوش اور امید سے زندہ تھے۔ زندگی آگے بڑھتی گئی اور جوش وخروش سے لوگ آگے بڑھتے گئے۔ جنہوں نے گھر بار لٹایا آج ان کے گھر دوبارہ بن گئے۔ جنہوں نے جائیداد چھوڑی وہ دوبارہ جائیداد والے ہو گئے۔ صرف اس لئے کے وہ محنت اور امید پر یقین رکھتے تھے دکھ اس وقت تک محسوس نہیں ہوتا جب تک امید زندہ ہو۔ محنت کی تھکن اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک محنت کا صلہ ملنا رہتا ہے۔ مگر اب لگتا ہے کے پاکستان کے لوگ تھک گئے ہیں انہیں امیدیں ٹوٹتی نظر آرہی ہیں۔ لوگ جشن آزادی کے موقع پر جیت پرشکن پیغامات بھیج رہے ہیں کسی نے ہمارے دوستوں کے گروپ پر آزادی مبارک کا پیغام بھیجا تو میری وہ دوست جو بس کو ہمیشہ حیدر آباد کی نواب فیملی ہونے کے باوجود پاکستان میں مڈل کلاس فیملی کی طرح زندگی گزارتے دیکھا اور خوش دیکھا اس نے جواب دیا کس آزادی کی بات کرتے ہو میں نے اسے تسلی دی کے سب کچھ بہتر ہوجائے گا۔ اس نے جواب دیا کوئی امید نہیں آتی۔ ایک اور دوست بس کی معمر والدہ مسلم لیگ کی کارکن تھیں پاکستان بننے کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ دہلی سے گھر بار چھوڑ کر آگئے۔ ایک کچے مکان میں چھوٹے بچوں کے ساتھ گزارہ کیا۔ اب نوے سال کی عمر میں وہ پاکستان کے حالات سے بہت افسردہ ہیں ہمیشہ اس سال جشن آزادی کے موقعے پر پاکستان کے لوگ جہاں اداس ہیں وہیں پاکستان سے باہر بسنے والوں میں بھی وہ جوش وخروش نظر نہیں آتا۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے ساتھ ہی وہاں کے حالات پر تبصرہ شروع ہوجاتا ہے۔ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے ہم سب یہ سوچتے ہیں کے بہت کم عام عوام اپنے ملک سے اتنی محبت کرتی ہے جتنی محبت پاکستان کے عوام اپنے ملک سے کرتے ہیں بہت کم لوگوں میں اپنے وطن کے بارے میں سوچنے کا اتنا جذیہ ہوتا ہے جتنا پاکستان کے عوام شدت سے سوچتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا اثر ہے ان کے خلوص اور محبت کا اثر ہے کے ان کی آئندہ نسلیں اتنی شدت سے پاکستان کے بارے میں سوچتی ہیں مگر کیا وجہ ہے کے پھر بھی پاکستان پنپ نہیں رہا۔ کیا وجہ ہے کے پھر بھی ہم سب پیچھے جارہے ہیں۔ پاکستان کا نام لے کر جو خوشی حاصل ہوتی تھی وہ ختم ہوتی جارہی ہے ہم سب لوگ وجوہات ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ بتاتے بھی رہتے ہیں دل بھی نکالتے رہتے ہیں۔ کیا بس اب اس دفعہ جشن آزادی کے موقعے پر دعا ہے کے ہمارے ملک کو کوئی حضرت خضرمل جائے جو راہ دکھا دے صحیح راستہ دلدل سے نکلنے کا آمین۔
٭٭٭